تراویح
کی نماز پر غامدی صاحب کی تحقیقات کا مقصد
قرآن کو سمجھنے کے لیے صرف قرآن کے الفاظ کافی ہیں :غامدی
رسول اللہ عربی الفاظ کے کامل فہم پر قادر نہ تھے:غامدی
مثلاً قرآن کے بارے میں ا ن کا دعویٰ ہے کہ قرآن کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر قطعی ہے اس کے شہرستان معانی تک پہنچنے کاایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں وہ اپنا مفہوم پوری قطعیت کے ساتھ واضح کرتے ہیں [غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۲۵] قرآن کا فہم عربی کے صحیح علم اور صحیح ذوق ہی پر منحصر ہے [غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۱۶]قرآن کا کوئی لفظ اور اسلوب اپنے مفہوم کے اعتبار سے شاذ نہیں ہوسکتا[ غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۲۱]قرآن کو سمجھنے کے لیے قرآن سے باہر کی کسی چیز کی ضرورت نہیں [غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۲۲]
حیرت ہے کہ قرآن اتنا قطعی ہونے کے باوجود رسالت مآب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا (نعو ذ باللہ)جن کی زبان بادیہ کی خالص ٹکسالی عربی زبان تھی لہٰذا قرآن کے بہت سے مشکل مقامات اللہ تعالیٰ نے خود رسول کو سمجھائے یہ موقف ہمارا نہیں غامدی صاحب کا ہی ہے پہلا موقف بھی انہی کا تھا۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں
اللہ نے سورہ قیامہ میں رسول اللہ سے کہا ثم ان علینا بیانیہ [۷۵:۱۹۹]پھر ہمارے ذمے ہے اس (قرآن)کی وضاحت [غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۱۵۵] اس کا مطلب یہی ہوا کہ قرآن قطعی ہونے کے باوجود رسول کی سمجھ میں نہیں آیا لہٰذا اللہ نے اس کی وضاحت کی ذمہ داری خود لی یعنی قرآن کے الفاظ کی دلالت قطعی نہیں اللہ کا رسول عربی زبان پر عبور رکھنے کے باوجود صرف الفاظ کی دلالت قطعی سے قرآن کے کامل مدعا تک خود نہیں پہنچ سکتے لہٰذا غامدی صاحب دوبارہ لکھتے ہیں۔
قرآن کے کسی حکم سے متعلق شرح و وضاحت کی ضرورت ہوگی تو وہ بھی اس موقع پر اللہ کی طرف سے کردی جائے گی (رسول اللہ کو) [غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۲۸ ]
قرآن قطعی ہے غامدی صاحب کی سمجھ میں آرہا ہے مگر رسول اللہ___ اللہ کی وضاحت کے محتاج ہیں غامدی صاحب کے اصول کا تضاد و تناقض دیکھ لیجیے۔ان کے اصول Oxymoron ہیں۔
قرآن کے بارے میں یہ اشقلے چھوڑنے کے بعدتراویح کے مسئلے پر بھی ان کی تحقیقات ،تضادات اورتناقضات کا مجموعہ ہے۔ اس تحقیق کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ تراویح کی نماز اصلاً ریاکاری ہے۔میزان میں تراویح سے متعلق ان کی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے
:
’’میزان ‘‘ میں تراویح کی نماز غامدی صاحب کی نظر میں
’’میزان ‘‘ میں تراویح کی نماز غامدی صاحب کی نظر میں
اس نمازتراویح کو صرف اور صرف تنہائی میں___وہ بھی رات کو سو کر اٹھنے کے بعد___جب ایک تہائی رات رہ جائے یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے کیوں کہ قرآن کا یہی حکم ہے۔اس نماز کی زیادہ سے زیادہ رکعات رسالت مآب ﷺ سے صرف گیارہ ثابت ہیں لیکن پوری امت رسولﷺ کے طریقہ سے انحراف کرکے آٹھ اور بیس رکعت پڑھ رہی ہے یہ نماز صرف شب کی تنہائی میں پڑھی جاتی ہے ۔امت نے قرآن کے اصول سے انحراف کرتے ہوئے اس تنہائی کی ____تنہا پڑھی جانے والی نماز کو ____اجتماعی نماز ___اجتماعی رنگ دے کرریا کاری اور بدعت کا ارتکاب کیا ہے،اور اس بدعت کا آغاز بھی [نعوذ باللہ] رسالت مآب نے ہی کیا تھا کیوں کہ وہ ایک دن راز داری کی فرض نماز تہجد اپنے حجرے میں پڑھنے کے بجائے غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق جلوت میں پڑھنے کے لیے مسجد میں آگئے ___مسجد نبوی میں رسول اللہ نے آکر تہجد کی نماز خلوت تنہائی کے بجائے جلوت میں پڑھی یعنی قرآن ک حکم کی خلاف ورزی کی [نعوذ باللہ] غامدی صاحب لکھتے ہیں رسول اللہ نے مسجد میں نماز تہجد پڑھی تو صحابہ ان کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے نبیؐ نے اسے دیکھا تو چند دنوں کے بعد یہ سلسلہ اس اندیشے سے منقطع کردیا کہ یہ نماز کہیں فرض نہ ہوجائے [غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۴۰] ___(۱)سوال یہ ہے کہ رسول اللہ تنہائی کی نماز مسجد میں پڑھنے کیوں آگئے___(۲) اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ صحابہ مسجد میں کیا کررہے تھے صحابہ تو عشاء کے بعد سو جاتے تھے اس سے بھی (۳)ا ہم سوال یہ ہے کہ رسول پر نماز فرض تھی وہ فرض نماز کی نیت باندھ رہے تھے صحابہ کیا فرض نماز کی نیت باندھ رہے تھے انھوں نے کس نماز کی نیت باندھی اور رسول نے انھیں اس بارے میں کیا سکھایا (۴)سوال یہ بھی ہے کہ رسول ﷺ نے چند دنوں تک یہ فرض تہجد نماز صحابہ کرام کو کیوں پڑھائی۔اللہ نے رسول ﷺکو نماز پڑھنے سے کیوں نہیں روکا۔(۵)رسول نے کس کی اجازت سے اپنی فرض نماز اجتماعی طور پر پڑھائی قرآن میں اس کی اجازت کہاں ہے؟
غامدی صاحب عقلی دلیل سے دین پر ایمان اٹھا دیتے ہیں
غامدی صاحب نے تراویح کی نماز پر میزان میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ جوہر،عطر یہی ہے وہ رسالت مآب کو اس امت کے اجماع کو اور اس امت کے عمل کو ہی مشکوک ٹھہرا دیتے ہیں ان کے دین کا اصل مقصد لوگوں کو دین کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار بنانے کے سوا کچھ نہیں۔کوئی بھی عقل مند یا عقلیت پسند آدمی اگر غامدی صاحب کے عقلی دین کو پڑھے گا تو وہ دین کو مسترد کر دے گا کیونکہ غامدی صاحب کا عقلی دین ہر دینی روایت ،حکم کو ایک کھیل ،تماشہ بنا کر رکھ دیتا ہے اور الٹے سیدھے فلسفیانہ عقلی استدلال دین پر لوگوں کا اعتماد ختم کر دیتے ہیں۔ اب ہم غامدی صاحب کے اصولوں کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔
پہلا اصول: ہر نماز کو ریا سے محفوظ رکھنا ضروری ہے:غامدی
غامدی صاحب لکھتے ہیں:یہ حقیقت ہے کہ نماز کی سب سے زیادہ عام اور سب سے زیادہ خطرناک آفت یہی ہے۔ اس کی اتنی قسمیں ہیں کہ محتاط آدمی بھی اس کی بعض قسموں کے حملے سے اپنی نماز کو نہیں بچا سکتا اور خطرناک اس وجہ سے کہ نماز کے لیے اخلاص شرط ہے اور ریا اخلاص کے منافی ہے۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی احیاء العلوم اور اسی طرح کی بعض دوسری کتابوں کا مطالعہ ریا کی اقسام سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے نہایت مفید ہے[غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۲۸، ۳۲۹]
دوسرا اصول : ریا سے بچنے کے لیے تہجد کی نماز شب کی تنہائی میں پڑھی جائے:غامدی
تیسرا اصول :تہجد کی نماز کی راز داری کو قائم رکھنا ضروری ہے:غامدی
چوتھا اصول :اپنی تہجد خوانی کا اشتہار دینا ریا پروری کرنے کے مترادف ہے:غامدی
غامدی صاحب میزان میں لکھتے ہیں :ریا سے بچنے کے لیے دوسری چیز جو اس کے لیے مفید ہے وہ تہجد کی نماز ہے۔ یہ نماز شب کی تنہائی میں پڑھی جاتی ہے اور نفس کے لیے نہایت سخت ہے اور اس کو مخفی رکھنے کی بھی تاکید ہے، اس وجہ سے جو لوگ محض دکھاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں وہ اس کی ہمت نہیں کرسکتے۔ اس کی ہمت وہی لوگ کرسکتے ہیں جو یا تو بے ریا ہو ں یا ریا کے فتنوں سے واقف ہوں اور اس سے اپنے آپ کو بچانے ہی کے لیے تہجد کے گوشۂ خلوت میں آکے چھپے ہوں۔ یہ نماز ریا کا سب سے زیادہ مفید علاج ہے بشرطیکہ آدمی اس کی راز داری کو قائم رکھ سکے۔ بعض لوگ اس سلسلہ میں بھی ریا میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔وہ یا خود مختلف پردوں میں اپنی شب بے داری اور تہجد خوانی کا اشتہار دیتے ہیں یا ان کے شاگرد اور مرید حضرات یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ نماز اس مقصد کے لیے نہ صرف یہ کہ کچھ مفید نہیں رہ جاتی، بلکہ کچھ مزید ریا پر ور بن جاتی ہے۔[غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۲۹]
یعنی غامدی صاحب کی تحریر سے اصول یہ معلوم ہوا کہ
(۱)تہجد ریا سے بچنے کے لیے پڑھی جاتی ہے (۲۲) تہجد کی نماز اللہ کی تاکید کے مطابق شب کی تنہائی میں پڑھی جاتی ہے (۳) تہجد ریا کا سب سے مفید علاج ہے (۴)تہجد کی شرط یہ ہے کہ اس کی راز داری قائم رکھی جائے (۵) اگر تہجد کا اعلان عام کردیا جائے تو یہ نماز ریا سے بچنے کے لیے مفید نہیں رہتی بلکہ تہجد کا اعلان ریا پروری کا مزید سبب بن جاتا ہے ۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ تراویح کی نماز اصل میں تہجد کی ہی نماز ہے جو عشا ء کے ساتھ ملا کر پڑھی جاتی ہے :غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص۳۴۲ تراویح کی نماز ظاہر ہے راز داری کی نماز نہیں ہے تو تراویح کے تہجد اصل میں ریا پروری کا سبب ہیں یعنی پوری امت تراویح پڑھ کر ریا کاری کررہی ہے یہی غامدی صاحب کے استدلال کا منطقی نتیجہ ہے ۔
پانچواں اصول: تہجد کی نماز اجتماعی طور پر نہیں پڑھی جاسکتی: غامدی
تہجد تنہائی کی ___خلوت کی نماز ہے تاکہ ریا کاری سے بچا جائے[غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۲۹
]
چھٹا اصول: تراویح تہجد کی نماز ہے: غامدی
چھٹا اصول: تراویح تہجد کی نماز ہے: غامدی
تراویح کی نماز اصل میں تہجد ہے جو عشاء سے ملا کر پڑھتے ہیں :غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۴۲۲اس کا مطلب یہ ہوا کہ تہجد اجتماعی طور پر نہیں پڑھی جا سکتی کیوں کہ تہجد تو ریا کاری سے بچنے کے لیے رات کے آخری حصے کی تنہائی کی نماز ہے [غامدی میزان ،۲۰۱۵ء،ص ۳۲۹]
مگر غامدی صاحب کی تحقیق ہے کہ تراویح ،تہجد کی نماز ہے جسے امت ہر سال اجتماعی طور پر پڑھتی ہے مگر اسے یاد نہیں کہ یہ تراویح اصلاً تہجد ہے (غامدی،میزان ۲۰۱۵،ص ۳۴۲
)
ساتواں اصول: قرآن کی رو سے تہجد کی نماز کا وقت سو کر اٹھنے کا ہے:غامدی
ساتواں اصول: قرآن کی رو سے تہجد کی نماز کا وقت سو کر اٹھنے کا ہے:غامدی
آٹھواں اصول: رسول اللہ نے تہجد کی نماز ہمیشہ تنہا سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی: غامدی
نواں اصول: تہجد کی نماز کا وقت جب ایک تہائی رات باقی رہ جائے:غامدی
تہجد کی نماز کا اصل وقت قرآن کی سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ مزمل کی رو سے سو کر اٹھنے کے بعد ہی کا ہے اور اسی وجہ سے اسے نماز تہجد کہا جاتا ہے، یہ نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے[غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص۳۳۹] رسول اللہ نماز تہجد ہمیشہ تنہاہی پڑھتے تھے۔(غامدی،میزان ۲۰۱۵، ص ۳۴۰)قرآن نے جب تہجد سو کر اٹھنے کے بعد پڑھنے کا حکم دیا تو اس حکم کی خلاف ورزی کیوں ہورہی ہے؟ یہ خلاف ورزی نعوذ باللہ رسول نے صحابہ کرام نے کی اور پوری امت بھی کررہی ہے۔
دسواں اصول: تہجد کی نماز کو مخفی رکھنے کی تاکید ہے:غامدی
ریا سے بچنے کے لیے جو چیز مفید ہے وہ تہجد کی نماز ہے یہ نماز شب کی تنہائی میں پڑھی جاتی ہے اور نفس کے لیے نہایت سخت ہے اس کو مخفی رکھنے کی تاکید ہے دکھاوے کی نمازیں پڑھنے والے اس کی ہمت نہیں کرسکتے(غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۲۹ )سوال یہ ہے کہ جب تہجد کو مخفی رکھنے کی تاکید ہے تو رسول اللہﷺ نے اس نماز کو مسجد بنوی میں پڑھ کر صحابہ کرام کو پڑھا کر___امامت کرکے عام کیوں کیا ؟اسے مخفی کیوں نہ رکھا؟۔امت تہجد کو تراویح کے نام پر سب کے سامنے اعلانیہ کیوں پڑھ رہی ہے؟۔کیا رسول اللہﷺ نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی(نعوذ باللہ) یا رسول اللہ ﷺ کو یہ حق ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی جو چاہے تشریح فر ما دیں۔اہل سنت کا تو عقیدہ یہی ہے لیکن غامدی صاحب تو اسے نہیں مانتے۔
گیارہواں اصول:تہجد کی نماز صرف رسول کے لیے فرض نماز ہے:غامدی
شب و روز کی پانچ نمازوں کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رات میں ایک اور نماز بھی لازم کی گئی تھی۔ اسے بالعموم صلوٰۃ اللیل یا تہجد کی نماز کہا جاتا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے نافلۃ لک کہا گیا۔ وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسآی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا [۱۷:۷۹]۔[غامدی میزان ۲۰۱۵، ۳۳۷]
قرآن کی رو سے جب یہ نماز صرف رسول پر فرض ہے اور قرآن نے امت کے لیے اسے نفل بھی نہیں کہا تو رسول کی امت نے اس عبادت کو جو رسول کے لیے خاص تھی تراویح کے ذریعے پوری امت کے لیے عام کیوں کردیا؟ (نعوذ باللہ) اس استدلال کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے دیکھیے اسلام کو تباہ کرنے کے لیے عقلی دلیلیں ہی کار آمد ہوتی ہیں۔
بارہواں اصول:تہجد عام مسلمانوں کے لیے فرض نہیں نفل نماز ہے:غامدی+
جب یہ نماز صرف رسول اللہﷺ پر فرض ہے اور امت کے لئے قرآن نے اسے نفل نہیں کہا تو رسول اللہ ﷺ نے اس عبادت کو جو صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص ہے عام کیسے کر دیا کیا یہ قرآن سے انحراف نہیں(نعوذ باللہ)
غامدی صاحب لکھتے ہیں عام مسلمانوں کے لیے یہ(تہجد) ایک نفل نماز ہے اور جنھیں اللہ تعالیٰ توفیق دے ان کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے ہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اس کا اہتمام کریں۔ بیان کیا گیا ہے کہ آپ اس نماز کی زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعتیں پڑھتے [غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۳۸] سوال یہ ہے کہ تہجد کی نماز مسلمانوں کے لیے نفل کیسے ہوگئی قرآن نے تہجد صرف رسول کے لیے فرض قرار دی مگر صحابہ کے لیے اس نماز کو قرآن نے نفل قرار نہیں دیا___قرآن کا حکم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے جب قرآن نے تہجد کی نماز پڑھنے کا حکم صحابہ کو نہیں دیا تو وہ یہ نماز کیسے پڑھ رہے تھے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ تہجد کی نفل نماز کس طرح پڑھی جائے گی رسول کی طرح یا اپنی اپنی مرضی سے ؟کیا صحابہ کرام رسول اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ سے انحراف کر سکتے ہیں ۔رسول کی تقلید،اتباع ان پر لازم ہے یا نہیں ۔جب رسول اللہ ﷺنے تہجد کبھی گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھی تو یہ امت آٹھ اور بیس ،تیس،چالیس رکعت پڑھ کیسے رہی ہے؟
دوسرے معنو ں میں صحابہ اور امت رسول کی تقلید کے بجائے ان سے انحراف کرتی ہے پوری امت گمراہ ہے غامدی صاحب کی تحقیق کا منطقی انجام یہی ہے۔ایک ذہین آدمی غامدی صاحب کے فلسفے سے یہی نتیجہ نکالے گا۔جدیدیت پسند لوگوں کو اسلام سے اسی طرح بے گانہ کرتے ہیں۔
تیرہواں اصول: صحابہ تہجد کی نماز کی راز داری نہیں رکھتے تھے:غامدی
غامدی صاحب نے میزان کے صفحہ ۳۲۹۹ پر یہ اصول بیان کیا تھا کہ تہجد کی نماز کو مخفی رکھنے کی تاکید ہے یہ نماز ریا کا علاج ہے بشرطیکہ آدمی اس کی راز داری قائم رکھے[غامدی،میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۲۹] مگر صرف دس صفحات کے بعد ان کا اصول اور موقف ہی بدل گیا اب فرماتے ہیں کہ صحابہ تہجد کی راز داری کا کوئی خیال نہ رکھتے تھے اس اصول کی تقریر وہ میزان میں اس طرح کرتے ہیں:
چنانچہ رسول اللہ نے اس کے بعد (تہجد کی نماز میں قرات کے لئے) اپنے صحابہ کو بھی اسی کا پابند کیا۔ ابو قتاوہ کی روایت ہے کہ حضور نے صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم (رات کی نماز میں) بہت پست آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے ۔ انہوں نے جواب دیا : میں اسے سناتا ہوں جو میری سرگوشی سنتاہے۔ آپ نے فرمایا :اسے کچھ بلند کرلو، پھر آپ نے عمر فاروقؓ ً سے کہا: میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بہت بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے۔ انھو ں نے جواب دیا: میں سوتوں کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا:اسے کچھ پست کرلو[غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۳۹]ظاہر ہے صحابہ تنہائی میں ___رازداری میں یہ نماز پڑھنے کی بجائے کھلم کھلا نماز پڑھ رہے تھے لہذا رسالت مآبﷺ اس جلوت کا مشاہدہ کر رہے تھے اور ان کی نماز کی اصلاح کررہے تھے اگر صحابہ قرآن کے حکم کے مطابق اپنی تنہائی میں تہجد کی نماز پڑھتے تو کبھی رسول اللہ کو ان کی نماز کی اصلاح کا موقع نہیں ملتا صحابہ نے قرآن کے حکم کی خلاف ورزی کی تہجد کو تنہائی میں نہیں پڑھا ۔کیا صحابہ کوتنہائی کا مطلب معلوم نہ تھا؟یا غامدی صاحب کی لغت میں تنہائی کے دو مطالب ہیں وہ خلوت و جلوت میں کوئی فرق نہیں کرتے۔اہم سوال یہ ہے کہ رسالت مآبﷺ نے جلوت میں تہجد پڑھنے والوں کی صرف آواز کی اصلاح کی ،ان کو یہ نہیں کہا کہ یہ نماز تہجد___تنہائی کی خلوت کی نماز ہے تم اسے سرعام،جلوت میں کیوں پڑھ رہے ہو آئندہ اس طرح نہ پڑھنا___اس کا مطلب یہ ہوا کہ تہجد تنہائی کی نماز نہیں یہ ہجوم میں بھی__جلوت میں بھی پڑھی جا سکتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے عمل،حکم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے لہذا غامدی صاحب کا ہر اصول رسول اللہﷺ کے عمل سے مسترد ہو جاتا ہے۔
چودھواں اصول:تہجد کی نماز کا وقت ایک تہائی رات کا ہے:غامدی
غامدی صاحب میزان میں لکھتے ہیں :
اس نماز کا اصل وقت جیسا کہ قرآن مجید کی سورہء بنی اسرائیل اور سورۂ مزمل سے واضح ہے۔ سو کر اٹھنے کے بعد ہی کا ہے اور اسی وجہ سے اسے نماز تہجد کہا جاتا ہے۔ قرآن نے اسے حضوری کا وقت قرار دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات ہماری اس دنیا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جب ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو فرماتے ہیں: اس وقت کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اس کی پکار کا جواب دوں۔[غامدی،میزان ،۲۰۱۵،ص۳۳۹]ایک جانب غامدی صاحب نے تہجد کی نماز کے اصول ،آداب بتائے دوسری جانب ان تمام اصول و آداب ہی کو بدل ڈالا؟ آخر کیوں؟یہ کیا انقلاب ہے؟سوال یہ ہے کہ تراویح جو تہجد کی نماز ہے وہ ایک تہائی رات سے پہلے کھلے عام کیوں پڑھی جارہی ہے؟ قرآن کے احکامات کی خلاف ورزی صحابہ کررہے تھے خود رسول اللہ نے نعوذ باللہ قرآن کے احکامات کی خلاف ورزی کی فرض نماز تہجد جو صرف رسول کے لیے خاص تھی سب صحابہ کو پڑھا دی رسول نے قرآن کی خلاف ورزی کی نعوذ باللہ۔
حکم تھا کہ یہ نماز تنہائی میں اکیلے پڑھنا ہے آپ نے جلوت میں سب کو پڑھا دی ۔رسول اللہ ﷺ نے امت کو سوئے بغیر__ایک تہائی رات رہ جانے سے پہلے،تنہائی کے بغیر کھلے عام اجتماعی طور پر ___عشاء کی نماز کے ساتھ ہی تہجد کو ملا کر (نعو ذ باللہ)ریاکاری کی صورت ۔یعنی تہجد کی نماز کوتراویح کی صورت میں پڑھنے کی اجازت دے دی (نعوذ باللہ) غامدی صاحب کے فلسفیانہ دین سے یہ تمام اعتراضات ایک ذہین آدمی ،خود کشید کر سکتا ہے ۔غامدی صاحب کا مقصد بھی یہی ہے۔
پندرہواں اصول:رسول اللہ نے قرآن کی نصوص کی خلاف ورزی کی :غامدی
سولہواں اصول: رسول نے تہجد کی نماز کے تمام اصول بدل دیے:غامدی
غامدی صاحب نے میزان کے ص ۳۲۹۹ پر فرمایا تھا کہ تہجد کی نماز کو مخفی رکھنے کی تاکید ہے یہ نماز صرف رسول پر فرض ہے یہ ریا کاری سے بچنے کے لیے ہے رسول اللہ نے(نعوذ باللہ) غامدی صاحب کے ان تینوں اصولوں کی نفی کرتے ہوئے یہ فرض نماز صحابہ کو پڑھا دی حالانکہ قرآن میں فرض نماز کا حکم صرف مسلمانوں کو ہے۔رسول اللہ نے انفرادی عبادت کو اجتماعی عبادت میں بدل دیا ریا کاری سے بچنے والی نماز کو ریاکاری کا مستقل نمونہ بنادیا نماز کا وقت تہجد سے مراد ایک تہائی رات تھا رسول اللہ نے اس وقت کو بھی بدل دیا۔سوال یہ ہے کہ کیا رسول قرآن کے احکامات کو تبدیل کرسکتے ہیں اس میں تغیر کرسکتے ہیں قرآن کے خاص کو عام کرسکتے ہیں؟کسی حکم کی تخصیص کراور حکم کی تعمیم کرسکتے ہیں کیا قرآن کے الفاظ سے حاصل مطلب سے ہٹ کر کوئی دوسرا مطلب بتا سکتے ہیں۔غامدی صاحب نے میزان کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ اللہ کے رسول کو ایسا کوئی اختیار ہی نہیں ہے [غامدی، میزان،۲۰۱۵ء،ص۲۵] مگر اب غامدی صاحب کی تحقیقات سے تو یہ معلوم ہورہا ہے کہ اللہ کے رسول کو اختیار ہے اسی لیے رسول اللہ نے قرآن کی خاص آیت تہجد کو عام کر دیا ۔تخصیص کی تعمیم کر دی۔قرآن کے بتائے ہوئے تہجد کے طریقہ نماز کو بھی بدل دیا تہجد کے وقت کو بھی بدل دیا تہجد کی شرائط تنہائی۔ تہائی رات کوبھی تبدیل کردیا نعوذ باللہ رسولؐ نے بدعت کا ارتکاب کیا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کا رسول قرآن پر حاکم ہے ،قرآن رسول کی سنت کا تابع ہے سنت قرآن پر حاکم ہے۔جبکہ غامدی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ قرآن رسول پر حاکم ہے غامدی صاحب کے دونوں اصول Oxymoron ہیں۔
سترہواں اصول: تراویح اصل میں تہجد کی نماز ہی ہے:غامدی
مسلمان اس بات سے واقف نہیں رہے کہ تراویح در حقیقت تہجد کی ہی نماز ہے جسے وہ عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھ رہے ہیں :غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۴۲
اٹھارہواں اصول:تہجد کی نماز صحابہ کرام راز داری سے نہیں پڑھتے تھے:غامدی
تہجد کی نماز کوتنہائی کی انفرادی عبادت کے بجائے اجتماعی عبادت بنا کر بدعت کا ارتکاب کیا گیا ۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن نے سورہ مزمل سورۂ بنی اسرائیل میں تہجد کو سو کر اٹھنے کے بعد کا وقت کہا[غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۳۹] توسوال یہ ہے کہ صحابہ نے اسے عشاء کے ساتھ کیوں ملایا رسول نے صحابہ کو یہ اجازت کیوں دی تہجد تو ریا کاری کے خاتمے کا نام ہے۔ یہاں تو ریا کاری ہورہی ہے کیوں؟
غامدی صاحب لکھتے ہیں:
سیدنا عمرؓ کے زمانہ خلافت تک لوگ رمضان کے مہینے میں بھی گھروں اور مسجدوں میں اسے بالعموم اپنے طور پر ہی پڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ ایک دن مسجد کی طرف آئے تو انھوں نے دیکھا کہ لوگ مختلف ٹکڑیوں میں اسی طرح یہ نماز پڑھ رہے ہیں کہ کوئی شخص تنہاتلاوت کررہا ہے اور کچھ کسی امام کی اقتدا میں ہیں۔ اس نماز میں چونکہ تلاوت کچھ بلند آواز سے ہوتی ہے اس وجہ سے مسجد میں عجیب بے نظمی کی کیفیت تھی۔ عمرؓ نے قرآن مجید کے آداب کے لحاظ سے اسے پسند نہیں فرمایا اور ابی بن کعب کو اس نماز کے لیے لوگوں کا امام مقرر کردیا۔ اس کے بعد ایک دوسری رات آپ پھر تشریف لائے لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا یہ نئی چیز اچھی ہے ۔ لیکن جس کو چھوڑ کر یہ سوئے رہتے وہ اس سے بہتر ہے۔ روایت سے واضح ہے کہ حضرت عمرؓ نہ صرف یہ کہ لوگوں کے ساتھ اس نماز میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے رات کے آخری حصے میں اٹھ کر تنہا یہ نماز پڑھنے کو اس سے بہتر قرار دیا۔(غامدی، میزان ۲۰۱۵ ، ص ۳۴۱)
غامدی صاحب کی تحقیق کے تحت تراویح تہجد کی نماز ہے ریا کاری سے بچاؤ کی ڈھال ہے تنہائی کی نماز ہے اب یہ انہی کی نئی تحقیق سے نعوذ باللہ ریا کاری کی نماز بن گئی ہے ہر شخص اس ریا کاری کودنیا بھر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔
انیسواں اصول: رسول اللہ نے کبھی تہجد کی نماز گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھی:غامدی
صحابہ اور پوری امت رسول نے کبھی گیارہ رکعت نماز نہیں پڑھی آٹھ یا بیس پڑھتے ہیں
غامدی صاحب لکھتے ہیں:
رسول اللہ نے یہ نماز جیسا کہ اوپر بیان ہوا کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی[غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۴۱]
بیسواں اصول:رسول اللہ ﷺ تہجد کی نماز ہمیشہ تنہا پڑھتے تھے: غامدی
اکیسواں اصول:رسول تہجد کی نماز اجتماعی طور پر پڑھاتے تھے:غامدی
غامدی صاحب لکھتے ہیں:نبی کریم ﷺ تہجد کی نماز ہمیشہ تنہا پڑھتے تھے تاہم رمضان کے کسی مہینے میں آپ تہجد کے لئے اٹھے اور مسجد میں بوریے کے حجرے سے باہر نکل کر نماز پڑھی تو آپ کی اقتداء میں عام مسلمان بھی اس نماز میں شریک ہو گئے ۔چند دنوں کے بعد آپ ﷺ نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا کہ مبادا یہ نماز عام مسلمانوں پر فرض کر دی جائے (غامدی، میزان ۲۰۱۵ ، ص۳۴۰) غامدی صاحب کی اس تحقیق سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو قرآن کے حکم میں تبدیلی کا اختیار ہے کیونکہ غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق (۱)تہجد کی نماز صرف رسول پر فرض تھی آپ کے لیے خاص تھی لیکن رسالت ماب نے اسے عام کرد یا(۲)یہ نماز صرف رسول کے لئے فرض تھی لیکن رسالت مآب ﷺ نے اسے نفل نماز بنا دیا جبکہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں (۳) اس نماز کی شرط تاکید یہ ہے کہ تنہائی میں پڑھی جائے مگر رسول اللہ ﷺ نے اس شرط کو ختم کرکے تنہائی کی بجائے مسجد میں نماز پڑھی جس سے سب کو نماز کا علم ہو گیا (قرآن نے تہجد کی نماز کی جماعت کی اجازت نہیں دی کیونکہ یہ رسول کے لئے خاص ہے لہٰذا اللہ کے رسول نے تہجد سے متعلق قرآن کے تمام احکامات کی خلاف ورزی کی(استغفر اللہ)____حالانکہ غامدی صاحب کا ہی اصول ہے کہ اللہ کا رسول بھی قرآن کے کسی حکم کی تحدید ،تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا (غامدی،میزان ۲۰۱۵، ص ۲۵
)
بائیسواں اصول :اللہ کا رسول بھی قرآن کے حکم کو تبدیل نہیں کرسکتا: غامدی
بائیسواں اصول :اللہ کا رسول بھی قرآن کے حکم کو تبدیل نہیں کرسکتا: غامدی
قرآن نے صرف رسول کو تہجد کی نماز پڑھنے کا حکم دیا تنہائی میں پڑھنے کا حکم دیا رات جب ایک تہائی رہ جائے تب پڑھنے کا حکم دیا تہجد ریا کاری سے بچنے کے لیے ہے ___لہٰذا راز داری کا حکم دیا مگر رسول اللہ نے قرآن کے تمام احکامات کی نفی کردی___فرض تہجد صحابہ کو پڑھادی___انفرادی عبادت کو اجتماعی عبادت بنادیا تنہائی کی نماز کو ___جلوت کی اجتماع کی عوام کی نماز بنادیا تاکہ امت میں ریا کاری عام ہو___ راز داری کا خاتمہ ہو___ہر ایک تہجد کو ریا کاری کا طریقہ بتائے نعوذ باللہ ___اجازت دے دی گئی کہ یہ نماز سونے سے پہلے بھی پڑھی جاسکتی ہے___ رسول کے نعو ذ باللہ یہ سب تفردات قرآن کی خلاف ورزی معلوم ہوتے ہیں کیوں کہ غامدی صاحب نے قرآن کے بارے میں ہمیں یہ اصول بتایا ہے کہ
(۱۱) قرآن کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر قطعی ہے وہ اپنا مفہوم پوری قطعیت سے واضح کرتا ہے خدا کا پیغمبر بھی قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کرسکتا [غامدی، میزان،۲۰۱۵ء،ص۲۵]کیا تہجد کے بارے میں قرآن کے احکامات کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی نہیں ہے؟ غامدی صاحب اس کا جواب دیں
(۲) خدا کا پیغمبر بھی قرآن کے کسی حکم میں ترمیم و تغیر نہیں کرسکتا [غامدی مقامات ۲۰۱۴۴ء ص ۱۴۷]رسول اللہ نے قرآن کے احکامات میں ترمیم کیوں کی؟
(۳۳) خدا کا رسول بھی قرآن کی حرام کردہ نو چیزوں کے سوا کسی چیز کو حرام نہیں کرسکتا خدا کا رسول بھی کسی چیز کو حرام نہیں ٹھہرا سکتا:غامدی مقامات ۲۰۱۴ء ص ۲۱۱___رسول اللہ نے نو چیزوں کے سوا کئی اور چیزوں کو حرام کیوں کیا شراب کو رسول نے حرام کیا جبکہ غامدی صاحب کی تحقیق ہے کہ پینے کی چیزوں میں صرف خون پینا حرام ہے اس کے سوا شراب وغیرہ حرام نہیں ہیں۔
لیکن اللہ کے رسول نے قرآن کے تمام احکامات جو تہجد سے متعلق تھے وہ سب تبدیل کردیے اس کے دو مطلب ہیں
(۱) یا تو رسول اللہ نے خدا نخواستہ قرآن کی خلاف ورزی کی اور ظاہر ہے کہ یہ امر محال ہے۔
(۲۲)یا رسول اللہ کو اختیار ہے کہ وہ قرآن کی آیات کے جو مطلب چاہیں امت کو بتائیں ۔کیونکہ آپ شارح قرآن ہیں۔
غامدی صاحب اصلاً یہ بتانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہی قرآن کی آیات سے انحراف کیا___ان کی تمام تحقیقات کا حاصل یہی ہے کہ رسول اللہ کو ہی قرآن کا باغی ثابت کردیں۔اس طرح کے عقلی استدلال پڑھنے والا ذہین جوان پہلے راسخ العقیدہ اسلام چھوڑتا ہے آخر میں غامدی صاحب کا اسلام بھی ترک کردیتا ہے کیوں کہ وہ عقل کے معیار پر پورا نہیں اترتا وہ Oxymoron نظر آتا ہے۔
تیئیسواں اصول:قرآن کا حکم صرف قرآن ہی تبدیل کرسکتا ہے:غامدی
چوبیسواں اصول :قرآن کے حکم کو رسول بھی تبدیل کرسکتا ہے:غامدی
غامدی صاحب کے ہر اصول کی طرح قرآن کی منسوخی، تبدیلی سے متعلق اصول بھی متناقض [Oxymoron] ہی ہے۔غامدی صاحب نے میزان میں تہجد اور تراویح کی نماز سے متعلق جو تحقیقات پیش کی ہیں اس میں انہوں نے رسالت مآب سے ثابت کیا ہے کہ
(۱۱)رسالت مآب نے تہجد کی نماز تنہائی میں پڑھنے کے بجائے مسجد نبوی میں پڑھی حالانکہ قرآن نے یہ نماز تنہائی میں پڑھنے کا حکم دیا تھا۔
(۲۲)رسول اللہ نے صحابہ کو بھی یہ نماز پڑھا دی حالانکہ یہ نماز صرف رسول کے لیے فرض تھی صحابہ رسول کے پیچھے نفل کی نیت باندھ رہے تھے اور رسول فرض نماز کی نیت باندھ رہے تھے فرض اور نفل نمازیں ایک جگہ جمع ہوگئیں۔
(۳۳)صحابہ بھی تہجد کی نماز تنہائی میں نہیں پڑھتے تھے لہٰذا رسول اللہ نے حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کی نماز تہجد کی اصلاح کی اگر وہ تنہائی میں نماز پڑھتے تو رسول اصلاح کیسے کرتے۔
(۴۴)یہ نمازتہجد انفرادی تھی رسالت مآب نے اسے اجتماعی بنادیا کئی دن تک اس کا اہتمام کیا جبکہ قرآن میں یہ نماز صرف رسول کے لیے فرض ہے تنہائی کی نماز ہے ایک فرض صحابہ پر بھی عائد کردیا گیا۔
(۵۵)قرآن کی رو سے یہ نماز سو کر اٹھنے کے بعد کی ہے رسالت مآب نے اسے سونے سے پہلے پڑھنے کی اجازت دے دی
(۶۶)یہ نماز ایک تہائی رات رہنے کے وقت پڑھنے کی ہے رسول نے اسے عشاء کے بعد ملا کرپڑھنے کی اجازت دے دی
(۷۷)یہ نماز تنہائی کی راز داری کی ہے تاکہ ریا کاری سے بچا جائے یہ نماز اب ریا کاری بنادی گئی (نعوذ باللہ)
یہ تمام انحرافات ظاہر ہے (نعو ذ باللہ ) غامدی صاحب کے قرآن کے خلاف ہیں کیوں کہ ان کی تحقیق کے مطابق ان کے دین میں قرآن کے حکم کو اللہ کا رسول نہیں صرف قرآن بدل سکتاہے یہ بھی غامدی صاحب کا ہی اصول ہے برہان میں لکھتے ہیں
قرآن کو صرف قرآن منسوخ کرسکتا ہے[ غامدی برہان طبع ہشتم جولائی ۲۰۱۳ء ص ۵۱۱] لیکن اللہ کے رسول نے تہجد سے متعلق تمام اصول جو غامدی صاحب نے قرآن سے ثابت کیے تھے خود ہی تبدیل کردیے۔
حالانکہ غامدی صاحب کا اصول ہے کہ سنت قرآن مجید کی کسی بات کو منسوخ نہیں کرسکتی قرآن کو صرف قرآن منسوخ کرسکتا ہے[غامدی برہان ۲۰۱۳ء ص ۴۷]
رسول صرف قرآن کی وضاحت اور شرح کرسکتا ہے شرح بس شرح ہے کوئی آیت منسوخ نہیں کرسکتا [غامدی برہان ۲۰۱۳ء ص ۵۲ ]سنت قرآن کے احکام میں تغیر و تبدیل نہیں کرسکتی[غامدی،برہان،۲۰۱۳ء ص ۵۶]
میزان میں غامدی صاحب نے ثابت کیا ہے کہ قرآن کے احکامات کو رسول بھی تبدیل کرسکتا ہے لہٰذا رسول اللہ نے تہجد کے قرآنی حکم کو جس طرح تبدیل کیا اس کی سات مثالیں ہم نے اوپر پیش کردی ہیں حوالے کے لیے میزان کے باب قانون عبادات میں نفل نمازوں کا باب پڑھ لیجیے۔
پچیسواں اصول: قرآن میں تہجد کی نماز کی رکعتوں کی تعداد کا اصول متعین نہیں :غامدی میزان ص
۳۴۲
چھبیسواں اصول : تہجد کی نماز میں رسول نے صرف گیارہ رکعتیں پڑھیں: غامدی ،میزان،ص۳۴۱
چھبیسواں اصول : تہجد کی نماز میں رسول نے صرف گیارہ رکعتیں پڑھیں: غامدی ،میزان،ص۳۴۱
ستائیسواں اصول: صحابہ نے تراویح میں تیئس سے زیادہ رکعتیں پڑھیں:غامدی میزان ص ۳۴۲
غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق قرآن نے رسول کو تہجد کی نماز کا حکم دیا مگر یہ حکم غیر واضح تھا اس میں نہیں بتایا گیا تھا کہ تہجد کی رکعتیں کتنی ہوں گی___جبکہ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن کا ہر حکم قطعی واضح ہوتا ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔
پھر وہ واضح قرآ ن کو پڑھے بغیر اپنے الٹے سیدھے اصول خود تخلیق کرتے ہیں ۔اور تہجد کی رکعتوں کی تعداد کے تعین کے لیے نت نئی باتیں بتاتے ہیں لکھتے ہیں
تہجد کے لیے رکعتوں کی کوئی تعداد چونکہ متعین نہیں ہے[غامدی میزان،۲۰۱۵ء، ص ۳۴۲]
سوال یہ ہے کہ قرآن کی کس آیت سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کس نے بتایا دلیل کیا ہے؟قرآن کا حکم تو قرآن ہی بتاسکتا ہے وہ کیوں نہیں بتارہا۔پھر لکھتے ہیں:رسول اللہ نے کبھی تہجدگیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھیں[غامدی، میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۴۱]
اگر رسول نے گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی اس سے تو یہ اصول نکلتاہے کہ تراویح کی آخری حد گیارہ ہے البتہ اس سے کم پڑھی جاسکتی ہیں سوال یہ ہے کہ رسول کو اس کا علم کیسے ہوا کہ تراویح صرف گیارہ پڑھی جائیں جب قرآ ن نے تراویح کی تعداد مقرر ہی نہیں کی تو کیا غامدی صاحب کو وحی ہوئی ہے کہ تہجد کی نماز کی تعداد متعین نہیں ہے اگر ایسا ہی ہے۔ تو رسول نے تہجد کی رکعتوں کی تعداد کیسے متعین کردی وہ اسے غیر متعین رہنے دیتے
صحابہ نے جو ہر معاملے میں رسول کی اتباع کرتے ہیں تراویح تہجد میں رسول کی اتباع نہیں کی اور کبھی آٹھ بیس اور کبھی تیئس بلکہ اس سے بھی زیادہ رکعتیں پڑھیں[غامدی میزان ص ۳۴۲]اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحابہ رسالت ماب کی تقلید نہیں کرتے ان کے عمل کو حجت قطعی نہیں سمجھتے اپنی مرضی سے جو چاہے کر گزرتے ہیں۔
اس تمام بحث سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن سے متعلقغامدی صاحب کے دونوں اصول متناقض[Oxymoron] ہیں پہلا اصول یہ ہے کہ
(۱) قرآن کو صرف قرآن منسوخ کرسکتا ہے۔
(۲)د وسرا اصول یہ ہے کہ قرآن کو رسول منسوخ بھی کرسکتا ہے تبدیل بھی کرسکتا ہے۔
تہجد ، تراویح سے متعلق غامدی صاحب کے ان رنگا رنگ اصولوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ موصوف صرف عقلی موشگافیوں کے ذریعے جدیدیت زدہ دین تخلیق کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment