واقعۂ معراج ۔ خواب یا حقیقت
#غامدیت_ایک_فتنہ #ہفتہ_غامدیت
#غامدیت_ایک_فتنہ #ہفتہ_غامدیت
تحریر
: محمّد سلیم
جاوید
احمد غامدی سے جب واقعۂ معراج کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے اسے ایک
خواب قرار دے دیا کہ یہ سفر بدنی نہیں بلکہ روحانی تھا ۔
غامدی صاحب کا یہ فلسفہ ان کے منکرِ حدیث ہونے کی کھلی دلیل ہے کیوں کہ احادیثِ مبارکہ میں واقعۂ معراج کو بحیثئیت خواب پیش نہیں کیا گیا ۔
پہلے غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں ۔
غامدی صاحب نے اس واقعے میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 60 سے استدلال لیا ہے جو یوں ہے :
وَمَا جَعَلۡنَا الرُّءۡيَا الَّتِىۡۤ اَرَيۡنٰكَ اِلَّا فِتۡنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الۡمَلۡعُوۡنَةَ فِى الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَنُخَوِّفُهُمۡۙ فَمَا يَزِيۡدُهُمۡ اِلَّا طُغۡيَانًا كَبِيۡرًا
ترجمہ : اور جو نمائش ہم نے تمہیں دکھائی اس کو لوگوں کے لئے آرمائش کیا۔ اور اسی طرح (تھوہر کے) درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی۔ اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو ان کو اس سے بڑی (سخت) سرکشی پیدا ہوتی ہے ۔
اس آیت میں لفظ "الرُّءۡيَا" کا ترجمہ غامدی صاحب نے بطور خواب کیا ہے ۔ جبکہ باقی تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ نمائش کیا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الرُّءۡيَا کا ترجمہ خواب نہیں ہوتا ؟ بالکل ہوتا ہے مگر اگر غامدی صاحب کو عربی زبان کا تھوڑا سا بھی علم ہوتا یا حدیث سے ہی شغف ہوتا تو اتنی سنگین غلطی نہ کرتے ۔
الرُّءۡيَا عربی زبان میں آنکھوں سے دیکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چاہے وہ خواب ہو یا نمائش ۔ لہٰذا اس کا ترجمہ وہی کیا جائے گا جو اس کے پس منظر کے مطابق ہو ۔ لفظ الرُّءۡيَا سے ریاکاری نکلا ہے جسے اسلام نے شرک قرار دیا ہے ۔ اب یہاں اس لفظ کا کیا ترجمہ کیا جائے گا ؟ کیا خواب دیکھنا شرک ہے غامدی کے نزدیک ؟
الرُّءۡيَا میں اور خواب میں اتنا ہی فرق ہے جتنا جانور میں اور شیر میں ۔ کہ ہر شیر جانور تو ہوتا ہے مگر ہر جانور شیر نہیں ہوتا ۔ کوئی کوئی گدھا بھی ہوتا ہے ۔ بالکل ایسے جیسے ہر عالم انسان ہوتا ہے مگر ہر انسان عالم نہیں ہوتا ۔ کوئی کوئی غامدی بھی ہوتا ہے ۔
ترجمے کا سیاق و سباق سے ہٹ کر اپنا من پسند ترجمہ کرنا غامدی صاحب کی پرانی عادت ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اٹھائے جانے کے معاملے میں بھی انہوں نے سورہ اٰل عمران کی آیت میں لفظ "متوفیکہ" کا ترجمہ فوت ہو جانا بمعنی موت کیا اور اس بات کو قصداً نظر انداز کیا کہ احادیث میں حضرت عیسیٰ سے متعلق کیا بیان ہے ۔
ترجمان کی یہ بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ترجمہ کرتے وقت سیاق و سباق کو دیکھ کر ترجمہ کرے ۔ مثلاً میرے والد کا 2009 میں کراچی میں انتقال ہوا اور پھر اسی سال میرا لاہور میں انتقال ہوا ۔ کیا مطلب ہے اس بات کا ؟ اب آپ سیاق و سباق کو جانے بغیر اس کا مطلب سمجھائیے ۔ یقین کریں میں یہ پوسٹ اپنے مرنے کے بعد نہیں لکھ رہا ۔ معاملہ صرف یوں ہے کہ میرے والد کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور علالت کے بعد 2009 میں موت سے ہمکنار ہوئے اور ان کے بعد میرا کراچی میں دل نہ لگا سو میں لاہور منتقل ہو گیا ۔
اپنی زندگی سے یہ مثال پیش کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ قران میں جو کچھ ﷲ تعالیٰ بیان کرتے ہیں اس کے سیاق و سباق ہمیں حدیث ہی فراہم کرتی ہے ۔ اور اگر حدیث کا انکار کر دیا جائے تو پھر اسی قسم کے ترجمے اور تشریحیں سامنے آئیں گی جیسی غامدی صاحب نے کیں ۔
اب آجائیں واقعۂ معراج کے سیاق و سباق پہ ۔
احادیث کے مطابق جب نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنے سفرِ معراج کی بابت بتایا تو یہودیوں نے ایک طوفانِ بدتمیزی کھڑا کر دیا اور آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کو معاذﷲ دیوانہ اور مجنوں قرار دے دیا ۔ حضرت ابو بکر رض کو کسی یہودی نے کہا کہ آپ کے رفیق اب دیوانوں سی باتیں کرنے لگے ہیں ۔ جس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ اگر یہ بات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمائی ہے تو میں اس پر ایمان لایا ۔ اسی ایمان کی بدولت حضرت ابو بکر کو صدیق کا لقب ملا ۔
سوال یہ ہے کہ اگر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا تو یہودیوں کو اتنا طوفانِ بدتمیزی کھڑا کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ خواب میں تو کوئی کچھ بھی دیکھ سکتا ہے ۔ ہم اور آپ خواب میں پتہ نہیں کہاں کہاں گھوم آتے ہیں ۔ کیا کبھی کوئی اعتراض کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم خواب میں سوئٹزر لینڈ کیسے گھوم آئے ؟ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے ؟
پھر ثبوت بھی مانگے گئے کہ جس کے بعد نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کو ان کے ایک قافلے کی بابت بتایا جو ابھی راستے میں تھا ۔
سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ﴿۱﴾
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے ﴿۱﴾
کیا اس آیت میں ﷲ تعالیٰ محض ایک خواب کا ذکر فرما رہے ہیں ؟ سبحان ﷲ ۔
بہتر طریقہ یہی ہے کہ قرانی آیات کا ترجمہ احادیث کی روشنی میں سیاق و سباق کے مطابق ہی کیا جائے ۔ اور کسی کو اگر حدیث کا انکار ہے تو وہ اس انکار کا برملا اعتراف کرے ۔
غامدی صاحب کا یہ فلسفہ ان کے منکرِ حدیث ہونے کی کھلی دلیل ہے کیوں کہ احادیثِ مبارکہ میں واقعۂ معراج کو بحیثئیت خواب پیش نہیں کیا گیا ۔
پہلے غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں ۔
غامدی صاحب نے اس واقعے میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 60 سے استدلال لیا ہے جو یوں ہے :
وَمَا جَعَلۡنَا الرُّءۡيَا الَّتِىۡۤ اَرَيۡنٰكَ اِلَّا فِتۡنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الۡمَلۡعُوۡنَةَ فِى الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَنُخَوِّفُهُمۡۙ فَمَا يَزِيۡدُهُمۡ اِلَّا طُغۡيَانًا كَبِيۡرًا
ترجمہ : اور جو نمائش ہم نے تمہیں دکھائی اس کو لوگوں کے لئے آرمائش کیا۔ اور اسی طرح (تھوہر کے) درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی۔ اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو ان کو اس سے بڑی (سخت) سرکشی پیدا ہوتی ہے ۔
اس آیت میں لفظ "الرُّءۡيَا" کا ترجمہ غامدی صاحب نے بطور خواب کیا ہے ۔ جبکہ باقی تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ نمائش کیا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الرُّءۡيَا کا ترجمہ خواب نہیں ہوتا ؟ بالکل ہوتا ہے مگر اگر غامدی صاحب کو عربی زبان کا تھوڑا سا بھی علم ہوتا یا حدیث سے ہی شغف ہوتا تو اتنی سنگین غلطی نہ کرتے ۔
الرُّءۡيَا عربی زبان میں آنکھوں سے دیکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چاہے وہ خواب ہو یا نمائش ۔ لہٰذا اس کا ترجمہ وہی کیا جائے گا جو اس کے پس منظر کے مطابق ہو ۔ لفظ الرُّءۡيَا سے ریاکاری نکلا ہے جسے اسلام نے شرک قرار دیا ہے ۔ اب یہاں اس لفظ کا کیا ترجمہ کیا جائے گا ؟ کیا خواب دیکھنا شرک ہے غامدی کے نزدیک ؟
الرُّءۡيَا میں اور خواب میں اتنا ہی فرق ہے جتنا جانور میں اور شیر میں ۔ کہ ہر شیر جانور تو ہوتا ہے مگر ہر جانور شیر نہیں ہوتا ۔ کوئی کوئی گدھا بھی ہوتا ہے ۔ بالکل ایسے جیسے ہر عالم انسان ہوتا ہے مگر ہر انسان عالم نہیں ہوتا ۔ کوئی کوئی غامدی بھی ہوتا ہے ۔
ترجمے کا سیاق و سباق سے ہٹ کر اپنا من پسند ترجمہ کرنا غامدی صاحب کی پرانی عادت ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اٹھائے جانے کے معاملے میں بھی انہوں نے سورہ اٰل عمران کی آیت میں لفظ "متوفیکہ" کا ترجمہ فوت ہو جانا بمعنی موت کیا اور اس بات کو قصداً نظر انداز کیا کہ احادیث میں حضرت عیسیٰ سے متعلق کیا بیان ہے ۔
ترجمان کی یہ بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ترجمہ کرتے وقت سیاق و سباق کو دیکھ کر ترجمہ کرے ۔ مثلاً میرے والد کا 2009 میں کراچی میں انتقال ہوا اور پھر اسی سال میرا لاہور میں انتقال ہوا ۔ کیا مطلب ہے اس بات کا ؟ اب آپ سیاق و سباق کو جانے بغیر اس کا مطلب سمجھائیے ۔ یقین کریں میں یہ پوسٹ اپنے مرنے کے بعد نہیں لکھ رہا ۔ معاملہ صرف یوں ہے کہ میرے والد کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور علالت کے بعد 2009 میں موت سے ہمکنار ہوئے اور ان کے بعد میرا کراچی میں دل نہ لگا سو میں لاہور منتقل ہو گیا ۔
اپنی زندگی سے یہ مثال پیش کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ قران میں جو کچھ ﷲ تعالیٰ بیان کرتے ہیں اس کے سیاق و سباق ہمیں حدیث ہی فراہم کرتی ہے ۔ اور اگر حدیث کا انکار کر دیا جائے تو پھر اسی قسم کے ترجمے اور تشریحیں سامنے آئیں گی جیسی غامدی صاحب نے کیں ۔
اب آجائیں واقعۂ معراج کے سیاق و سباق پہ ۔
احادیث کے مطابق جب نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنے سفرِ معراج کی بابت بتایا تو یہودیوں نے ایک طوفانِ بدتمیزی کھڑا کر دیا اور آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کو معاذﷲ دیوانہ اور مجنوں قرار دے دیا ۔ حضرت ابو بکر رض کو کسی یہودی نے کہا کہ آپ کے رفیق اب دیوانوں سی باتیں کرنے لگے ہیں ۔ جس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ اگر یہ بات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمائی ہے تو میں اس پر ایمان لایا ۔ اسی ایمان کی بدولت حضرت ابو بکر کو صدیق کا لقب ملا ۔
سوال یہ ہے کہ اگر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا تو یہودیوں کو اتنا طوفانِ بدتمیزی کھڑا کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ خواب میں تو کوئی کچھ بھی دیکھ سکتا ہے ۔ ہم اور آپ خواب میں پتہ نہیں کہاں کہاں گھوم آتے ہیں ۔ کیا کبھی کوئی اعتراض کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم خواب میں سوئٹزر لینڈ کیسے گھوم آئے ؟ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے ؟
پھر ثبوت بھی مانگے گئے کہ جس کے بعد نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کو ان کے ایک قافلے کی بابت بتایا جو ابھی راستے میں تھا ۔
سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ﴿۱﴾
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے ﴿۱﴾
کیا اس آیت میں ﷲ تعالیٰ محض ایک خواب کا ذکر فرما رہے ہیں ؟ سبحان ﷲ ۔
بہتر طریقہ یہی ہے کہ قرانی آیات کا ترجمہ احادیث کی روشنی میں سیاق و سباق کے مطابق ہی کیا جائے ۔ اور کسی کو اگر حدیث کا انکار ہے تو وہ اس انکار کا برملا اعتراف کرے ۔