Saturday, April 14, 2018

واقعۂ معراج ۔ خواب یا حقیقت




واقعۂ معراج ۔ خواب یا حقیقت
#غامدیت_ایک_فتنہ #ہفتہ_غامدیت
تحریر : محمّد سلیم
جاوید احمد غامدی سے جب واقعۂ معراج کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے اسے ایک خواب قرار دے دیا کہ یہ سفر بدنی نہیں بلکہ روحانی تھا ۔
غامدی صاحب کا یہ فلسفہ ان کے منکرِ حدیث ہونے کی کھلی دلیل ہے کیوں کہ احادیثِ مبارکہ میں واقعۂ معراج کو بحیثئیت خواب پیش نہیں کیا گیا ۔
پہلے غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں ۔
غامدی صاحب نے اس واقعے میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 60 سے استدلال لیا ہے جو یوں ہے :
وَمَا جَعَل
ۡنَا الرُّءۡيَا الَّتِىۡۤ اَرَيۡنٰكَ اِلَّا فِتۡنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الۡمَلۡعُوۡنَةَ فِى الۡقُرۡاٰنِ‌ ؕ وَنُخَوِّفُهُمۡۙ فَمَا يَزِيۡدُهُمۡ اِلَّا طُغۡيَانًا كَبِيۡرًا
ترجمہ : اور جو نمائش ہم نے تمہیں دکھائی اس کو لوگوں کے لئے آرمائش کیا۔ اور اسی طرح (تھوہر کے) درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی۔ اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو ان کو اس سے بڑی (سخت) سرکشی پیدا ہوتی ہے ۔
اس آیت میں لفظ "الرُّء
ۡيَا" کا ترجمہ غامدی صاحب نے بطور خواب کیا ہے ۔ جبکہ باقی تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ نمائش کیا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الرُّء
ۡيَا کا ترجمہ خواب نہیں ہوتا ؟ بالکل ہوتا ہے مگر اگر غامدی صاحب کو عربی زبان کا تھوڑا سا بھی علم ہوتا یا حدیث سے ہی شغف ہوتا تو اتنی سنگین غلطی نہ کرتے ۔
الرُّء
ۡيَا عربی زبان میں آنکھوں سے دیکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چاہے وہ خواب ہو یا نمائش ۔ لہٰذا اس کا ترجمہ وہی کیا جائے گا جو اس کے پس منظر کے مطابق ہو ۔ لفظ الرُّءۡيَا سے ریاکاری نکلا ہے جسے اسلام نے شرک قرار دیا ہے ۔ اب یہاں اس لفظ کا کیا ترجمہ کیا جائے گا ؟ کیا خواب دیکھنا شرک ہے غامدی کے نزدیک ؟
الرُّء
ۡيَا میں اور خواب میں اتنا ہی فرق ہے جتنا جانور میں اور شیر میں ۔ کہ ہر شیر جانور تو ہوتا ہے مگر ہر جانور شیر نہیں ہوتا ۔ کوئی کوئی گدھا بھی ہوتا ہے ۔ بالکل ایسے جیسے ہر عالم انسان ہوتا ہے مگر ہر انسان عالم نہیں ہوتا ۔ کوئی کوئی غامدی بھی ہوتا ہے ۔
ترجمے کا سیاق و سباق سے ہٹ کر اپنا من پسند ترجمہ کرنا غامدی صاحب کی پرانی عادت ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اٹھائے جانے کے معاملے میں بھی انہوں نے سورہ اٰل عمران کی آیت میں لفظ "متوفیکہ" کا ترجمہ فوت ہو جانا بمعنی موت کیا اور اس بات کو قصداً نظر انداز کیا کہ احادیث میں حضرت عیسیٰ سے متعلق کیا بیان ہے ۔
ترجمان کی یہ بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ترجمہ کرتے وقت سیاق و سباق کو دیکھ کر ترجمہ کرے ۔ مثلاً میرے والد کا 2009 میں کراچی میں انتقال ہوا اور پھر اسی سال میرا لاہور میں انتقال ہوا ۔ کیا مطلب ہے اس بات کا ؟ اب آپ سیاق و سباق کو جانے بغیر اس کا مطلب سمجھائیے ۔ یقین کریں میں یہ پوسٹ اپنے مرنے کے بعد نہیں لکھ رہا ۔ معاملہ صرف یوں ہے کہ میرے والد کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور علالت کے بعد 2009 میں موت سے ہمکنار ہوئے اور ان کے بعد میرا کراچی میں دل نہ لگا سو میں لاہور منتقل ہو گیا ۔
اپنی زندگی سے یہ مثال پیش کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ قران میں جو کچھ ﷲ تعالیٰ بیان کرتے ہیں اس کے سیاق و سباق ہمیں حدیث ہی فراہم کرتی ہے ۔ اور اگر حدیث کا انکار کر دیا جائے تو پھر اسی قسم کے ترجمے اور تشریحیں سامنے آئیں گی جیسی غامدی صاحب نے کیں ۔
اب آجائیں واقعۂ معراج کے سیاق و سباق پہ ۔
احادیث کے مطابق جب نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنے سفرِ معراج کی بابت بتایا تو یہودیوں نے ایک طوفانِ بدتمیزی کھڑا کر دیا اور آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کو معاذﷲ دیوانہ اور مجنوں قرار دے دیا ۔ حضرت ابو بکر رض کو کسی یہودی نے کہا کہ آپ کے رفیق اب دیوانوں سی باتیں کرنے لگے ہیں ۔ جس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ اگر یہ بات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمائی ہے تو میں اس پر ایمان لایا ۔ اسی ایمان کی بدولت حضرت ابو بکر کو صدیق کا لقب ملا ۔
سوال یہ ہے کہ اگر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا تو یہودیوں کو اتنا طوفانِ بدتمیزی کھڑا کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ خواب میں تو کوئی کچھ بھی دیکھ سکتا ہے ۔ ہم اور آپ خواب میں پتہ نہیں کہاں کہاں گھوم آتے ہیں ۔ کیا کبھی کوئی اعتراض کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم خواب میں سوئٹزر لینڈ کیسے گھوم آئے ؟ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے ؟
پھر ثبوت بھی مانگے گئے کہ جس کے بعد نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کو ان کے ایک قافلے کی بابت بتایا جو ابھی راستے میں تھا ۔
سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔

سُب
ۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ‏ ﴿۱
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے ﴿
۱
کیا اس آیت میں ﷲ تعالیٰ محض ایک خواب کا ذکر فرما رہے ہیں ؟ سبحان ﷲ ۔
بہتر طریقہ یہی ہے کہ قرانی آیات کا ترجمہ احادیث کی روشنی میں سیاق و سباق کے مطابق ہی کیا جائے ۔ اور کسی کو اگر حدیث کا انکار ہے تو وہ اس انکار کا برملا اعتراف کرے ۔


Wednesday, June 7, 2017

جناب جاوید احمد غامدی.... شخصیت واَفکار کا تعارف

: جناب جاوید احمد غامدی.... شخصیت واَفکار کا تعارف




ولادت: ١٩٥١ء کو ساہیوال کے علاقہ پاک پتن میں پیدا ہوانے والے اِن صاحب کا آبائی علاقہ سیالکوٹ کا ''داؤد'' نامی قصبہ ہے۔

نام: نام کا قصہ یہ ہے کہ والدہ محترمہ کو ''جاوید'' پسند تھا، والد کے شیخ نے ''کاکوشاہ''کہا۔ چھوٹی خالہ کے بیٹے کا نام رفیق تھا، انہوں سے ''شفیق'' رکھ دیا۔ بڑی خالہ نے ''کاکامحمد'' تجویز کیا۔بعد میں ایک استاذ کے مشورے سے ''شفیق احمد جاوید'' اور پھر ''جاویداحمد'' نام رکھ لیا۔


نسبت: ''غامدی'' نسبت کی کہانی یہ ہے کہ اپنے آبائی گاؤں کے ایک بزرگ مصنف مقبول انوری داؤدی صاحب کو دیکھ کر شوق ہوا کہ میری بھی کوئی نسبت ہونی چاہیے۔ دادااِصلاح کا کام کرتے تھے، لہٰذا ''غمد الأمر'' کا معنی ''أصلح الأمر'' دیکھ کر ''غامدی'' نسبت اختیار کرلی۔


تعلیم: پاک پتن کے ایم سی پرائمری سکول، پکاسدھار کے سکول، اسلامیہ ہائی سکول پاک پتن میں دسویں تک تعلیم حاصل کی۔ پھر پانچ سال گورنمنٹ کالج لاہور میں گزارے۔ فلسفہ اور انگریزی ادب میں بی اے کے ساتھ آرنر زکیا۔
١٩٧٢ء کو فراغت ہوئی۔

دینی تعلیم: نانگپال(ضلع ساہیوال) کی مسجد کے امام مولوی نورمحمد (دیوبندی) صاحب سے شرح جامی تک عربی اور پند نامہ تک فارسی پڑھی۔ نویں جماعت تک فنون کی تمام کتب (گمنام اساتذہ سے) ختم کرلیں۔ بعد میں صوفی ضیاء الحق صاحب سے ''مقامات ہمدانی''، مولانا عطاء اللہ حنیف غیر مقلد سے ''دارمی'' کا کچھ حصہ پڑھا۔ امین احسن اصلاحی صاحب سے ''زخرف'' تا آخر قرآنِ پاک، مؤطا مالک، قرآن وحدیث پر تدبر کے اُصول ومبادی اور فلسفہ جدید کے بعض مباحث پڑھے۔


شعرگوئی: شعروشاعری کا شروع سے شوق رہا۔
٦٨،٦٩ کے زمانہ میں کچھ اشعار بعض مجلات میں شائع بھی ہوئے۔

فکری تعلق: کالج کے آخری سال میں مولانا فراہی کی بعض کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کسی کتاب کے دیباچے میں اُن کے تلمیذ رشیدمعروف تجدد پسند عالم جناب امین احسن اصلاحی صاحب کا تذکرہ تھا۔ پوچھتے پاچھتے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی وساطت سے اُن تک پہنچے۔
١٩٧٣ء میں اُن سے وابستہ ہوئے اور ١٩٨٣ء تک دس سال اُن کے ساتھ گزارے۔اُنھی کی ملاقاتوں سے جناب غامدی صاحب کو یہ ''شرح صدر'' ہوا کہ: ''دین محض مان لینے کی چیز نہیں ہے۔''اور یہ ''حقیقت'' بھی واضح ہوئی کہ: ''قرآن ایک قولِ فیصل ہے، دین وشریعت ہر چیز کے لیے میزان ہے۔ (لہٰذا اپنی عقل کے مطابق ) اِس کی روشنی میں ہم (متجددین) حدیث وفقہ، فلسفہ وتصوف اور تاریخ وسیر ہر چیز کا محاکمہ کرسکتے ہیں۔'' مولانا اِصلاحی کی فکر غامدی صاحب کے لیے ''نئے قرآن'' کی دریافت ثابت ہوئی۔ اور ١٩٨٣ء میں جب مولانا اصلاحی سے تعلیم کا مرحلہ مکمل ہوا تو غامدی صاحب کے معتقدات کی دنیا میں ایسا اضطراب پیدا ہوچکا تھا کہ ہرچیز اپنی جگہ چھوڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔لہٰذا نئی تعمیر کی ضرورت تھی۔ اگلے سات برس اِسی بندوبست کی نذر ہوگئے۔

تصنیف: زمانۂ کالج میں ہی تصنیف کا شوق ہوا۔ کچھ تھوڑا بہت لکھا بھی۔ زیادہ تر منصوبے ہی بنائے۔
١٩٩٠ء میں جب (نئے دین کی) تعمیر کے لیے زمین ہموار ہوئی تو مستقل لکھنا شروع کردیا۔ اَب تک جو تصانیف غامدی صاحب کے قلم سے سامنے آچکی ہیں، یہ ہیں:
١)…میزان: یہ پورے ''غامدی دین'' کا بیان ہے۔
٢)…برہان: وہ مباحث جن میں غامدی صاحب نے جمہور علماء کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔
٣)…مقامات: اپنے ذاتی حالات واحساسات، اجتہادی مسائل میں ''دین ِ غامدی'' کا موقف اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
٤)…خیال وخامہ اشعار کا مجموعہ ہے۔
٥)… البیان: قرآن پاک کا ترجمہ وتفسیر۔جو ''دین غامدی '' کی ترجمانی کے لیے وقف ہے۔اِس کی تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ ایک ابھی باقی ہے۔

مودودی صاحب سے تعلق: چھٹی یا ساتویں کلاس کے تاریخ کے استاذ نصیر الدین ہمایوں صاحب کی وساطت سے مودودی صاحب کے نام اور کام کا تعارف ہوا تھا۔ اسلامی جمعیة طلبہ کے سالانہ اجتماع میں بھی اُسی زمانہ میں شرکت ہوئی۔وہیں مولانا مودودی کو دیکھا اور اُن کی ''دِل نواز شخصیت'' کے اسیر ہوگئے۔


قائم کردہ ادارے: کالج کے زمانہ میں دوستوں کے ساتھ مل کر ''دائرة الفکر'' کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماہنامہ ''خیال'' کے نام سے رسالہ بھی جاری کرنا تھا۔ ایک دارالعلوم بھی بنانا تھا۔ اِن تینوں چیزوں نے مودودی صاحب سے ایک قدم آگے بڑھ کر ''اسلامی انقلاب'' کا کام کرنا تھا۔ جوخامی اُن کی جماعت میں رہ گئی تھی، اُسے دُور کرنا تھا۔ دارالعلوم کا نام ''جامعہ الحمرائ'' تجویز ہوا تو رسالے کا نام بھی ''الحمرائ'' سوچ لیا گیا۔ پہلا شمارہ ناتجربہ کاری کی بنا پر ایسا تھا کہ ضائع کرنا پڑا۔
١٩٧١ء میں علامہ اقبال روڈپر بعض دیگر لوگوں کی معاونت سے درس قرآن کا حلقہ قائم کیا گیا۔ ڈیڑھ دوبرس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر باقاعدہ ''تحریک'' کی شکل دیدی گئی۔ لیکن جلد ہی اِس تنظیم کو ختم کرنا پڑا۔
مارچ
١٩٧٣ء میں ''دائرة الفکر'' سے ''اشراق'' نامی مجلہ چھاپا۔ لیکن ڈیکلریشن نہ ملنے کے باعث وہ جاری نہ رہ سکا۔کچھ عرصے بعد ''دائرة الفکر'' کا نام تبدیل کرکے ''دارالاشراق'' رکھ دیا گیا۔اُس زمانے میں مودودی صاحب کی خدمت میں بکثرت حاضری رہی۔ اُن سے کام کا ذکر کیا، سرپرستی قبول کرنے کی درخواست کی جو قبول ہوگئی۔ غامدی صاحب اور مودودی صاحب کے نام سے ایک مشترک اکاؤنٹ حبیب بینک اچھرہ میں کھولا گیا۔ مودودی صاحب اُس اکاؤنٹ میں ہزار روپیہ ماہنامہ اپنی جیب سے جمع کراتے رہے۔ غامدی صاحب بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ اچھرہ منتقل ہوگئے۔اِس دوران مودودی صاحب کی خواہش پر غامدی صاحب ''جماعت ِ اسلامی'' کے رکن بن چکے تھے۔
١٩٧٦ء میں اچھرہ سے بوری بستراُٹھایا اور ''مریدکے'' منتقل ہوگئے۔ اور جنوری ١٩٧٧ء میں غامدی صاحب کی ''جماعت اسلامی'' سے رکنیت ختم کردی گئی۔ اس وقت میاں طفیل صاحب امیر تھے۔ غامدی صاحب کو ''جماعت اسلامی'' سے نکال دیا گیا ۔ لیکن وہ ابھی بھی مودودی صاحب کی زلف کے اسیر ہیں۔ اور اُن کی جماعت کو ''اپنی برادری'' سمجھتے ہیں۔
قیامِ ''مریدکے'' کے دوران غامدی صاحب کے توجہ دلانے پر بعض اہل ثروت نے ''فرخ فاؤنڈیشن'' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اور ایک رسالہ ''الاعلام'' شروع کیا گیا۔ لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا۔
اِسی دوران غامدی اور اُن کے بعض دیگر رفقاء رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے تو فکر معاش دامن گیر ہوئی۔ مجبوراً اپریل
١٩٧٨کو ''دارالاشراق'' نامی ادارہ بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔اور ماہنامہ ''اشراق'' کی ڈیکلریشن غامدی صاحب کے ایک ساتھی کے نام ملنے کے بعد جنوری ١٩٧٩ء کے شمارے میں اِس کا اعلان کردیا گیا۔البتہ غامدی صاحب نے رسالہ جاری رکھنے کا سوچا۔ لیکن دوہی شماروں کے بعد اُسے بھی بند کرنا پڑا۔
غامدی صاحب کے استاذ جناب امین احسن اصلاحی صاحب بھی ابتدا میں مودودی صاحب کے رفیق رہے، پھر اُن کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اور ''حلقہ تدبر قرآن'' کے نام پر تعلیم قرآن کی آڑ میں اپنے تجددپسندانہ افکار کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ غامدی صاحب نے اپنے استاذ کے اِس حلقے پر بھی قابض ہونا چاہا اور آگے بڑھ کر ''ادارۂ تدبر قرآن وحدیث'' کے نام سے ادارہ قائم کرکے اُس کے تحت سہ ماہی ''تدبر'' رسالہ شروع کردیا۔لیکن جلد ہی احساس ہوگیا کہ: یہاں دال نہیں گلنے والی۔ تو اُس ادارے سے الگ ہوگئے۔


المورد کا قیام: بعض تلامذہ کے اصرار اور دیگر کی ہمنوائی پر جون
١٩٨٣ء میں ایک ادارہ قائم کیا جو اَب ''المورد'' کے نام سے اِلحاد وزندقہ کی نشر واشاعت میں مصروف ہے۔ ١٩٨٥ء میں ماہنامہ ''اشراق'' بھی شروع ہوگیا۔ ١٩٨٧ء میں اس کی ڈیکلریشن غامدی صاحب کو مل گئی تب سے مسلسل شائع ہورہا ہے۔ شروع میں غامدی صاحب کے پاس رہا، پھر اپنے بیٹے معاذ احسن کے حوالے کردیا۔ ''رینی رساں'' نامی انگریزی رسالہ بھی ١٩٩٠ء سے اب تک جاری ہے۔

غامدی متاعِ حیات: غامدی صاحب جب چھٹی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے اور پاک پتن میں رہائش پذیر تھے، تب مطالعہ وتحقیق کے لیے لائبریری جایا کرتے تھے۔ راستے میں ایک بینک کے دروازے پر پہرا دینے والے سنتری سے آنکھیں چار ہوتی تھیں۔ ایک روز اُس نے روک لیا۔ غامدی صاحب کے ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔ اُس نے کہا کہ: ''یہ کتاب پڑھ لو، یہ ایک بڑے آدمی کی کتاب ہے۔ اور میں تمہیں ایک اور کتاب دوں گا جس میں اِس کتاب پر علمی تنقید کی گئی ہے، کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے وہ بھی پڑھ لینا۔ علم کی دنیا میں اشخاص کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہاں ساری اہمیت صرف دلیل کو حاصل ہے۔''غامدی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دونوں کتابیں پڑھ لیں۔ ''یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں دلیل کی اہمیت سے واقف ہوا۔ میری یہی واقفیت آج بھی میری زندگی کی سب سے بڑی متاع ہے۔''
]مقامات:
١٣ تا ٤٢[
اِسی ''متاعِ حیات'' نے غامدی صاحب کو علماء امت، فقہائے دین اور صحابہ کرام حتی کہ خود شارع علیہ الصلوة والسلام سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اور وہ ''دلیل'' کے نام پر محض اپنے علم وعقل کے پیچھے چل پڑے۔ کیونکہ اُن کے نزدیک ''دلیل'' نام ہی ''اپنے مطالعہ وفہم سے سمجھ میں آنے والی چیز'' کا ہے ۔
دلیل کا تقاضا…مختلف ادوار، مختلف خیالات:(حکومتی دین)
غامدی صاحب کیونکہ ''دلیل'' کی اہمیت سے واقف تھے، اِس لیے حالات وزمانہ کے مطابق اپنے خیالات وافکار میں مسلسل تبدیلیاں لاتے رہے۔ مثلاً: جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں غامدی صاحب کا خیال تھا کہ: مذہب انسان کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہی نہیں، ریاستی ضرورت بھی ہے۔ اور بدنام زمانہ جنرل پرویز مشرف کے دور تک اُن کی یہی رائے رہی۔ چنانچہ
١٩٩١ء اور ١٩٩٣ء کے مطبوعہ مضامین میں لکھتے ہیں:
 ''بعض جماعتوں کے لیڈر اَبھی یہ جسارت تو نہیں کرسکتے کہ اِس معاشرے کو کھلم کھلا اِلحاد اور بے دینی کی دعوت دیں۔ چنانچہ اُنھوں نے اِس کے لیے دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ: مذہب لوگوں کا انفرادی مسئلہ ہے۔ وہ اگر اسے اختیار کیے رکھنا چاہتے ہیں تو کیے رکھیں، لیکن جہاں تک ریاست کا تعلق ہے ، اسے مذہب سے بالکل بے تعلق رہنا چاہیے۔ ان کے نزدیک یہ بات اب مسلمات میں سے ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ … یہ نقطۂ نظر ظاہر ہے کہ محض جہالت پر مبنی ہے۔'' ]پس چہ باید کرد،ص:
٤٨۔طبع: ١٩٩٣ئ…ماہنامہ تذکیرجنوری ١٩٩١ئ،ص:٢٨[
لیکن جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد ''دلیل'' کا تقاضایہ ہوا ''روشن خیال اسلام'' تشکیل دیا جائے، چنانچہ اُس کے لیے سرگرداں ہوگئے۔ اور ملکی حالات عموماً اُسی رخ پر چلنے کے باعث تاحال ''دلیل'' کا تقاضا یہی ہے۔ چنانچہ اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں:
 ''یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے۔ اور اُس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اِس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔'' ]روزنامہ جنگ
٢٧جنوری ٢٠١٥ئ[
اِس پر مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم کا مختصر تبصرہ نہایت چشم کشا ہے۔ حضرت مدظلہم نے اپنے ایک مکتوب میں اِس پر ''ولتعرفنھم فی لحن القول.'' کے قرآنی الفاظ سے تبصرہ فرمایا ہے۔ حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی رحمہ اللہ اِس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
''آپ اُن (منافقین) کو طریقہ گفتگو سے پہچان لیں گے۔ ایسے لوگ جب بات کرتے ہیں تو کسی نہ کسی موقع پر اُن کی اسلام دشمنی ظاہر ہوہی جاتی ہے۔'' ]معالم العرفان:
٧٨١٧[
اور صاحب ِ تفسیر حقانی لکھتے ہیں:
''منافقین اپنے حال کو بھی مسلمانوں سے بہت مخفی رکھتے تھے کہ مبادا ہماری اندرونی خباثت معلوم ہوجائے۔ ...اِس بات کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:...ان کی طرزِ گفتار سے بھی اے محمد(
ۖ) آپ پہچان لیں گے۔'' ]٣١٦٤[
اِسی طرح پرویز مشرف کی آمد سے قبل ''دلیل'' کا تقاضا یہ تھا کہ داڑھی ''سنت'' اور ''دین کا حصہ'' ہو، لیکن زمانہ مشرف میں ''دلیل'' کا تقاضا تبدیل ہوگیا۔ چنانچہ داڑھی نہ سنت رہی اور نہ دین کا حصہ۔ بلکہ عرب کے معاشرے کا ایک دستور قرار پائی۔ داڑھی کے بارے میں ان کے دونوں موقف اُن کے تلمیذ رشید جناب عمارخان ناصر کے قلم سے پڑھیے!
''دین میں داڑھی کے بارے میں استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے دوقول ہیں۔ قولِ جدید کے مطابق یہ ان کے نزدیک کوئی دینی نوعیت رکھنے والی چیز نہیں۔ '' ]اشراق،جنوری
٢٠١١ئ،ص:٤٥[
اور خود غامدی صاحب اپنا حالیہ موقف یوں لکھتے ہیں:
''داڑھی مرد رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی رکھی ہوئی تھی۔ آپ کے ماننے والوں میں سے کوئی شخص اگر آپ کے ساتھ تعلق خاطر کے اظہار کے لیے یا آپ کی اتباع کے شوق میں داڑھی رکھتا ہے تو اسے باعث ِسعادت سمجھنا چاہیے، لیکن یہ دین کا کوئی حکم نہیں ہے۔'']مقامات:
١٣٨،طبع اول[
''دلیل'' کے تقاضے کی ایک اور مثال بھی پڑھتے جائیے! غامدی صاحب نے اپنی کتاب ''مقامات'' پہلی مرتبہ
٢٠٠٦ء میں طبع کرائی تھی، جس کے تین حصے تھے: عربی، اردو، انگریزی۔ عربی کے کل ٢٢ صفحات تھے، ہر صفحے میں ٢٢ سے زیادہ فحش غلطیاں۔ انگریزی شاعری دوسرے انگریز شاعروں کے کلام کا سرقہ تھی۔جب اِن دونوں چیزوں پر گرفت شروع ہوئی تو ''دلیل'' کا تقاضا یہ ہوا کہ کتاب کتب خانوں سے اٹھالی جائے۔ لہٰذا اُٹھالی گئی۔ ٢٠٠٨ء میں دوبارہ شائع کی گئی، جس میں سے عربی اور انگریزی والا حصہ غائب تھا۔کتاب پر ''طبع اول٢٠٠٨ئ'' کا لفظ جگمگا رہا تھا۔ رہے نام ''دلیل'' کا۔!!
اِس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف وتالیف کے نگران ڈاکٹر خالد جامعی صاحب کا غامدی دین پر تبصرہ برمحل اور درست ہی معلوم ہوتا ہے کہ: ''غامدی صاحب کا دین ''حکومتی دین'' ہوتا ہے۔ جیسی حکومت، ویسا دین۔''


غامدی صاحب کی بنیادی فکر…اور دین غامدی کا خلاصہ:
مشرف کے دورِ اقتدار میں غامدی صاحب کو بالکل اُسی طرح بلکہ اُس سے بڑھ کر سرکاری مشینری کی سرپرستی اور پذیرائی حاصل ہوئی جس طرح ایوب خان کے زمانہ میں غلام احمد پرویز، ڈاکٹر فضل الرحمن اور عمر احمد عثمانی کو ملی۔ چنانچہ غامدی صاحب کو ''اسلامی نظریاتی کونسل'' کا رکن چن لیا گیا۔ ہوم سیکرٹری اور اِس سے اعلیٰ درجے کے افسران میں غامدی صاحب کے ''تربیتی دروس'' ہونے لگے۔ ٹی وی اور میڈیا کے ذریعے بام عروج پر پہنچایا گیا۔ اور پرویز مشرف کے ایماء پر ایک ایسے ''اسلام'' کی تشکیل کے در پئے ہوئے جو دنیا کے تمام مذاہب کے لیے قابل قبول ہو۔ اس کے لیے بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا۔ کلمہ سے لے کر وصیت کے مسائل تک میں ''قدیم اسلام'' سے الگ اور جداگانہ مسائل وضع کیے۔ چنانچہ غامدی پارٹی کا موقف ہے کہ: یہود ونصاریٰ کے لیے نبی کریم پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اس کے بغیر بھی اُن کی بخشش ہوجائے گی۔ اُن کے لیے اپنی کتاب اور اپنے نبی کو ماننا کافی ہے۔]اشراق،جنوری
٢٠٠٨،ص:٧٠[
غامدی صاحب چونکہ (بحکم پرویزمشرف) اِس کوشش میں تھے کہ ایسا دین تشکیل دیا جائے جو پوری دنیا کے انسانوں کے لیے قابل قبول ہو۔ لہٰذا ''سنت'' کی بھی ایسی تعبیر وضع کی جو دراصل یہود ونصاریٰ میں ہی رائج العمل ہو۔ چنانچہ غامدی صاحب کے نزدیک ''سنت'' حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی فعل کا نام نہیں۔ بلکہ ''دین ابراہیمی کی روایت'' کا نام ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اِصلاح کے بعد ''دین کی حیثیت سے'' جاری فرمایا ہو۔گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ''شارع'' کے بجائے صرف ایک ''مجدد'' کی رہی۔ اور ''دین کی حیثیت'' سے ہونے کے فیصلے کا معیار ''عقل غامدی'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔
صرف اِسی پر بس نہیں بلکہ غامدی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:اِس سنت کی تفصیلات کو قرآن سے اخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، بلکہ اس کے حاملین کے اجماع اور تواتر سے اس کی تفصیلات لی جائیں گی۔ ]میزان،ص:
٤٧،طبع مئی ٢٠١٤ئ[ظاہر بات ہے کہ دین ابراہیمی کی روایت کے حاملین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یہود ونصاریٰ اور مشرکین مکہ ہی تھے۔ لہٰذا غامدی دین کی ''سنت'' کی تفصیلات یہود ونصاریٰ کے اجماع اور تواتر سے حاصل کی جائیں گی۔
غامدی صاحب تعمیل ِ حکم مشرف میں یہاں تک پہنچ گئے۔ لیکن مسلمانوں کو فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ: ''یہود ونصاریٰ اُس وقت تک تم سے راضی نہیں ہوسکتے جب تک تم اُن کا دین اختیار نہ کرلو۔'' لہٰذا تمام مذاہب ِعالم کے لیے قابل قبول بنانا ہے تو ''اسلام''کو ''یہودیت ونصرانیت'' میں مکمل طور پر ڈھال دیا جائے۔ ورنہ وہ تو راضی نہیں ہوں گے۔ گویا اُن کے لیے نیا دین نہیں وضع کرنا بلکہ اُن کے دین کو اپنانا ہے، لیکن لیبل اُس پر ''اسلام'' کا لگانا ہے۔
چنانچہ غامدی صاحب اپنی مزعومہ سنت کے بارے میں یہاں تک لکھتے ہیں کہ: یہ قرآن کے بعد نہیں بلکہ قرآن پر مقدم ہے۔]ایضاً[ یعنی یہود ونصاریٰ کے طریقے مسلمانوں کے قرآن پر مقدم ہیں۔اگر کہیں قرآن اور یہود ونصاریٰ کے عمل میں تقابل ہوجائے تو قرآن کو چھوڑ دیا جائے گا اور یہود ونصاریٰ کے عمل کو اپنا لیا جائے گا۔ یہی ''غامدی اسلام'' ہے۔
قرآن وسنت کا یہ حشر کرنے کے بعد غامدی صاحب ''حدیث'' کی طرف بڑھے اور صاف صاف کہہ دیا کہ: ''حدیث سے دین میں کسی عقیدہ یا عمل کا اضافہ نہیں ہوسکتا۔'' ]میزان:
١٥[ یعنی حدیث شریف محض بطورِ برکت پڑھنے کی چیز ہے۔ فکری وعملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ بہت سے اسلامی عقائد اور سیکڑوں احکاماتِ شرعیہ کا دارمدار احادیث مبارکہ پر ہے۔ غامدی صاحب نے بیک جنبش قلم سب کا انکار کردیا۔
قرآن وسنت اور حدیث کے بعد تیسری دلیل شرعی ''اجماعِ امت'' ہے جو غامدی صاحب کے نزدیک ویسے ہی بدعت ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ''دین کے مآخذ میں اجماع کا اضافہ یقینا بدعت ہے۔'' ]اشراق،اکتوبر
٢٠١١ئ،ص:٢[ لیکن حیرت کی بات ہے کہ غامدی صاحب ''امت ِمسلمہ'' کے اجماع کو تو بدعت قرار دیتے ہیں، لیکن حاملین روایت ِدین ابراہیمی (یہودونصاریٰ) کے اجماع وتواتر کو تسلیم کرتے ہیں۔ ]میزان:٤٧[ ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
قارئین کرام!
غور فرمائیے! غامدی صاحب نے مسلمانوں کو کہاں لاکھڑا کیا ہے۔
…پہلے کہاکہ: یہود ونصاریٰ کے لیے نبی کریم
ۖ پر ایمان ضروری نہیں۔ اِس سے کلمے کی اہمیت ختم۔
… پھر کہاکہ: ''سنت'' نبی کریم
ۖ کا عمل نہیں ''دین ابراہیمی کی روایت'' ہے۔
…پھر فرمایا: اِس سنت کی تفصیلات یہودونصاریٰ کے اجماع وتواتر سے حاصل کی جائیں گی۔
… اور بات ختم یہاں کی کہ: یہ سنت قرآن کے بعد نہیں بلکہ قرآن پر مقدم ہے۔
تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ:
…یہود ونصاریٰ کے طریقے ہی اصل دین اسلام ہے۔ وہ قرآن پر مقدم ہیں۔ وہی اصل میں سنت ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اُن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُن کے طریقوں کو اپنا لینا چاہیے۔ فیا للأسف5]
: جناب جاوید احمد غامدی.... شخصیت واَفکار کا تعارف



حصہ دوم:

چند غامدی اُصول:
غامدی صاحب کے چار بڑے اُصو ہیں:
١)…عربی معلیٰ ٢)…تصورِ سنت ٣)…فطرت ٤)…اتمام حجت
١)…عربی معلیٰ:
غامدی صاحب مبادی تدبر قرآن کے تحت لکھتے ہیںکہ:
''اِس کتاب کا فہم اَب اس زبان کے صحیح علم اور ا س کے صحیح ذوق ہی پر منحصر ہے، اور اِس میں تدبر اور اِس کی شرح وتفسیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی اِس زبان کا جید عالم ہو اور اِس کے اسالیب کا ایسا ذوق آشنا ہو کہ قرآن کے مدعا تک پہنچنے میں کم سے کم اُس کی زبان اُس کی راہ میں حائل نہ ہوسکے۔ … ہر معاملے میں یہی کتاب قولِ فیصل اور یہی صحیفہ معیار ہے۔… قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر جس پر یہ نازل ہوا ہے، اِس کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اِس میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کرسکتا۔ … ایمان وعقیدہ کی ہر بحث اِس سے شروع ہوگی اور اِسی پر ختم کردی جائے گی۔ … اِس کے الفاظ کی دلالت اِس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے۔ … اِس کا مفہوم وہی ہے جو اِس کے الفاظ قبول کرلیتے ہیں۔… حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید وتخصیص کا یہ مسئلہ سوئِ فہم اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔
]میزان:
١٦تا٣٦[
اِس غامدی اُصول کا خلاصہ یہ ہے قرآن پاک سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے تفسیر بالحدیث، تفسیر بآثار الصحابہ اور تفسیر باقوال المفسرین کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ محض عربی دانی اور عربی زبان واسلوب کی واقفیت کی بنیاد پر قرآن کو مکمل طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ البتہ لغت کو حل کرنے لیے شعراء وفصحاء عرب کی طرف ضرور رجوع کیا جائے گا۔اور عربی لغت وادب کی کتب بہرحال مستند ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
 '' لغت و ادب کے ائمہ اس بات پر ہمیشہ متفق رہے ہیںکہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور جو صحتِ نقل اور روایت باللفظ کی بنا پرزبان کی تحقیق میں سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔'' ]میزان:
١٩[
لہٰذا حلِ قرآن کے لیے ائمہ لغت اور ادبِ عربی سے تو راہ نمائی لی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے معنی ومفہوم کے لیے ذخیرہ حدیث اور ائمہ تفسیر سے راہ نمائی لینا درست نہیں۔یا للعجب۔۔!!


٢)…تصورِ سنت:
تصورِ سنت کی وضاحت گذشتہ سطور میں ہوچکی ہے کہ غامدی دین میں: سنت دین ابراہیمی کی روایت جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہو۔ اَب جس عمل ِ نبوی کی بابت غامدی صاحب کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اِسے یہود ونصاریٰ قبول نہیں کریں گے تو اُس کی بابت بڑے دھڑلے سے کہہ دیتے ہیں کہ : یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تو تھا۔ لیکن ''دین کی حیثیت'' سے نہیں۔ اپنے معاشرے کے رواج اور طریقے کے طور پر۔ لہٰذا یہ ''سنت'' نہیں۔ چنانچہ داڑھی، عمامہ، مسنون لباس اور دیگر بہت سی سنتوں کے ساتھ اُن کا یہی رویہ ہے۔
یہ غامدی بیماری اُن کے تلامذہ میں بھی بھرپور طریقے سے سرایت کی ہوئی ہے۔ چنانچہ اُن کے مایہ ناز تلمیذ رشید عمارخان ناصر مرد وعورت کی دیت کے بارے میں یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ: ''صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فیصلے مذہب جمہور کے مطابق ہیں۔ حضرت عمر اور سیدنا علی کے فیصلے ہیں۔'' اِسے ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ اور عذر لنگ یہی ہے کہ: ''یہ فیصلے دین وشریعت کے طور پر نہیں بلکہ ماحول اور معاشرے کے مطابق کیے گئے تھے۔ '' ]ماہنامہ اشراق:
٤١،٤٢۔اگست ٢٠١٢ئ[
غامدی صاحب کے اِس تصورِ سنت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں ہزاروں مبارک سنتوں کی تعداد گھٹا کر
٢٧ تک محدود کردی ہے۔ اور خوب غور وخوض کے بعد صرف اُن چیزوں کو ''سنت'' قرار دیا ہے جن پر یہودونصاریٰ کو اعتراض نہ ہو۔

٣)…فطرت:
حلال وحرام کے معاملے میں غامدی صاحب نے یہودونصاریٰ کو راضی رکھنے کے لیے یہ فلسفہ گھڑا ہے کہ شریعت کے نزدیک حلال وحرام کی بنیاد وحی یا آسمانی تعلیمات نہیں، انسانی فطرت ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
''طیبات وخبائث کی کوئی جامع مانع فہرست شریعت میں کبھی پیش نہیں کی گئی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت اِس معاملے میں بالعموم اُس کی صحیح راہ نمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کرلیتا ہے کہ کیاچیز طیب ہے اور کیا خبیث ہے۔'']میزان:
٦٢٩[
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے منع فرمایا، اُن کے بارے میں لکھتے ہیںکہ:
''چنانچہ خدا کی شریعت نے اِس معاملے میں انسان کو اصلاً اُس کی فطرت ہی کی راہ نمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچلی والے درندوں، چنگال والے پرندوں، جلالہ اور پالتو گدھے وغیرہ کا گوشت کھانے کی جوممانعت روایت ہوئی ہے، وہ اِسی فطرت کا بیان ہے۔ شراب کی ممانعت سے متعلق قرآن کا حکم بھی اِسی قبیل سے ہے۔ ]میزان:
٦٣٠[
اِس غامدی فلسفے کے نتیجے میں شریعت کی تمام حرام کردہ چیزیں محض غامدی فطرت کی بنا پر حلال قرار پائیں گی۔ اور ہر انسان کو آزادی ہوگی کہ جسے چاہے حلال سمجھ کر کھالے اور جسے چاہے حرام سمجھ کر چھوڑدے۔


٤)…اتمام حجت:
غامدی صاحب نے یہودونصاریٰ کی رضامندی کی خاطر قرآنِ پاک کی من چاہی تفسیر کے لیے محض عربی دانی کا اصول وضع کیا۔اپنی مرضی کا ''تصورِ سنت'' گھڑا۔ قرآن کو اُس سنت کے ماتحت قرار دیا۔ احادیث مبارکہ کو فکری وعملی زندگی میں غیر مؤثر قرار دیدیا۔ اجماع امت کو 'بدعت' کہہ دیا۔ حلت وحرمت کو فطرت ِانسانی کے سپرد کردیا۔ لیکن چند مسائل ایسے تھے کہ اُن کا کوئی حل اِن غامدی اُصولوں سے نہیں ہوپارہا تھا۔ چنانچہ اتمام حجت کا ایک اور قانون تشکیل دیاگیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
 ''دین کی اصطلاح میں کافر قراردینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر اللہ کی حجت پوری ہوگئی ہے اور یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس نے ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر دین کا انکار کیا ہے۔ دین کی کامل وضاحت جس میں غلطی کا کوئی شائبہ نہ ہو، صرف اللہ کا پیغمبر اور اُن کے تربیت یافتہ صحابہ ہی کرسکتے تھے۔ اس وجہ سے اتمام حجت کے بعد تکفیر کا حق دین نے انھی کو دیا ہے۔ ان کے بعد دین کی کامل وضاحت چونکہ کسی فرد یا اجتماع کے بس کی بات نہیں ہے، اس لیے اب تکفیر کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے۔''
]ہٹس
٩٠١،٢٥ستمبر٢٠٠٩ئ[
یعنی نبی کے بعد کسی شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ کسی کی تکفیر کرے۔ حتی کہ ریاست بھی کسی کی تکفیر نہیں کرسکتی۔ اِس قانون کا مقصد یہ ہے کہ: جب کسی کی تکفیر نہیں کی جاسکتی تو کسی سے جہاد بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جہاد کافروں سے ہوتا ہے۔ اور جب کسی کی تکفیر کا حق نہیں ہے تو کسی کو ''مرتد'' قرار دے کر ارتداد کی سزا کا حق بھی نہیں ہے۔ اور ہر ذی شعور سمجھتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کو جہاد اور سزائے ارتداد سے جس قدر تکلیف ہے، شاید کسی اور حکم اسلامی سے نہیں۔ اِس لیے غامدی صاحب اِن احکامات کو تہہ تیغ کرنے کے در پئے ہیں۔ جہاد کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ جہاد وقتال ہے، لیکن اس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:
ایک، ظلم وعدوان کے خلاف،
دوسرے، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف۔
پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اِسی کے تحت جہاد اُسی مصلحت سے کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اِس دنیا میں ہمیشہ اُس کے براہِ راست حکم سے اور انھی ہستیوں کے ذریعے سے رو بعمل ہوتا ہے جنھیں وہ رسالت کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ ]میزان،قانون جہاد،ص:
٥٧٧،طبع مئی ٢٠١٤ئ[
گویا نبی کریم
ۖ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد جہاد کا دروازہ بند ہے۔

٥)…سزائے قتل:
اِن چار بڑے اُصولوں کے ساتھ سزائے رجم اور شاتم رسول کی سزائے قتل کے سد باب کے لیے ایک اور غامدی ضابطہ بیان کیاگیا ہے۔ کیونکہ زنا کے مجرم کو رجم کرنا اور یا شاتم رسول کو قتل کرنا یہود ونصاریٰ کو کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ اِس لیے غامدی صاحب کو یہ ضابطہ ایجاد کرنا پڑا کہ اسلام میں قتل کی سزا صرف قتل نفس اور فساد فی الارض کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
 ''موت کی سزا قرآن مجید کی رو سے قتل نفس اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں بھی نہیں دی جاسکتی۔''
]برہان:
١٤٣[
یہاں غامدی صاحب کو ''فساد فی الارض'' کی قید دووجہ سے لگا نی پڑی:
]
١[… قتل نفس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو سزائے قتل دی یا دلوائی، اُن کے جرم کی تاویل کرکے اُسے اِس ضمن میں لایاجاسکے۔ جیسے وہ شاتمین رسول جنھیں آپۖ نے قتل کرایا، غامدی صاحب اُن کو فساد فی الارض کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ غامدی صاحب نے اِس مقام پر یہود ونصاریٰ کی رضامندی کے حصول کی خاطر اصحاب ِ رسول پر زبان درازی اور اُن پر گھناؤنے الزامات لگانے سے بھی احتراز نہیں کیا۔ چنانچہ صحابی رسول حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:
 اعتراف جرم اور ندامت سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ یہ (حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ) کوئی مرد صالح تھا جس سے یہ جرم اتفاقاً سرزد ہوگیا۔ دنیا میں جرائم کی جو تاریخ اب تک رقم ہوئی ہے، اس سے دسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ بدترین اوباش اور انتہائی بد خصلت غنڈے جو کسی طرح گرفت میں نہیں آسکتے تھے، ارتکاب جرم کے فوراً بعد کسی وقت اس طرح قانون کے سامنے خود پیش ہوئے کہ ان کی ندامت پر لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے ہم دردی کے جذبات امنڈ آئے۔ نفسیات جرم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے محرکات کئی ہوسکتے ہیں: مجرم اس اندیشے میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اب یہ جرم چھپا نہ رہے گا، اس لیے وہ خود آگے بڑھ کر اس خیال سے اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کردیتا ہے کہ اس طرح شاید اسے سخت سزا نہ دی جائے۔
 …پروردگار اسے جنت میں بھی داخل کرسکتا ہے۔ اللہ کا رسول اگر دنیا میں موجود ہو اور اسے وحی کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ مجرم کی مغفرت ہوگئی اور یہ معلوم ہوجانے کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھے اور لوگوں کو بھی اس کے حق میں دعا کی نصیحت کرے تو اس سے اس کردار کی نفی کس طرح ہوجائے گی جو توبہ واصلاح سے پہلے اس مجرم کا رہا؟ اس سے کیا یہ سمجھا جائے کہ کسی اوباش کو کبھی توبہ کی توفیق نہیں ملتی؟ اور جو شخص توبہ کرلے، اس کے بارے میں یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کبھی اوباش بھی رہا تھا؟
]برہان:
٨٥[
گویا غامدی صاحب اِس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اُن کے قلم سے اصحاب رسول بھی محفوظ نہیں۔
جب غامدی صاحب کا اصحاب ِ رسول کے بارے میں یہ رویہ ہے تو اُن کے تلامذہ کیوں پیچھے رہنے لگے؟ غامدی صاحب کے تلمیذ رشید جناب عمارخان ناصر صاحب بھی حضرت ماعزرضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے نہ ''حضرت'' کا سابقہ لگانے کا تکلف کرتے ہیں اور نہ ہی ''رضی اللہ عنہ'' کے دعائیہ کلمے کا حوصلہ۔لکھتے ہیں:''اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز اسلمی اور غامدیہ کے واقعات میں جو طرز…ماعز اسلمی کے جرم کی نوعیت…بعض روایات کے مطابق ماعز کو رجم کرنے کے بعد … ]حدود و تعزیرات:
٤٧، ١٦٣، ١٦٤[ بلکہ ایک دوسرے مقام پر تو عمارخان صاحب نے اصحاب رسول کی بابت انتہائی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اُن کو زنا کے اڈے چلانے والا لکھ دیا ہے۔ (العیاذ باللہ)۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
''اس معاشرے میں آپ کے تربیت یافتہ اور بلند کردار صحابہ کے علاوہ منافقین اور تربیت سے محروم کمزور مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو مختلف اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں میں مبتلا تھی اور ان کی اصلاح وتطہیر کا عمل، جتنا بھی ممکن تھا، ایک تدریج ہی کے ساتھ ممکن تھا۔ اس طرح کے گروہوں میں نہ صرف پیشہ ورانہ بدکاری اور یاری آشنائی کے تعلقات کی مثالیں پائی جاتی تھیں بلکہ اپنی مملوکہ لونڈیوں کو زنا پر مجبور کر کے ان کے ذریعے سے کسب معاش کا سلسلہ بھی جاری وساری تھا۔'']الشریعہ،جون
٢٠١٤ئ،ص:١٨٨[
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی جن شخصیات کو عمارخان صاحب نے ''تربیت سے محروم کمزور مسلمان'' سے تعبیر کیا ہے، وہ کون تھے؟ کیا وہ صحابہ نہیں تھے؟ تھے اور یقیناً تھے۔ اِنھی صحابہ کرام پر نعوذباللہ پیشہ وارانہ بدکاری، یاری آشنائی اور زنا کے اڈے چلانے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ ''تربیت سے محرم کمزورمسلمان'' کی اصطلاح عمارخان صاحب نے روافض سے چرائی ہے۔
]
٢[… ''فساد فی الارض'' کی قید کی دوسری وجہ: غامدی صاحب کے سرپرست اعلیٰ جنرل پرویز مشرف اور اُن کے ''اعلیٰ حضرات'' یہود ونصاریٰ اگر قتل نفس کے علاوہ کسی کو سزائے موت دیتے ہیں تو اُس کو بھی ''فساد فی الارض'' کے تحت لاکر اُن کے ہر جائز ناجائز فعل کو سند ِ جواز فراہم کی جاسکے۔

٦)…عقل پرستی:
دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد عقل پرستوں کی ہے۔ بلکہ موجودہ یہود اور بالخصوص نصاریٰ میں بھی اکثر اپنے دین سے ایسے برگشتہ ہوچکے ہیں جیسے غامدی صاحب اور اُن کے متعلقین اسلام سے۔ غامدی صاحب نے ایسے ہی عقل پرستوں کی رعایت کرتے ہوئے اپنے دین کی بنیاد عقل پر رکھی ہے۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ غامدی صاحب کی ''متاعِ حیات''کل دو چیزیں ہیں۔


]
١[…دلیل کی اہمیت: جو اُن کو ایک سنتری سے حاصل ہوئی تھی۔اِس کا جائزہ لیا جاچکا ہے۔
]
٢[…عقل کی اہمیت۔ جو اُن کو اپنے استاذ امین احسن صاحب سے ملی کہ: ''دین محض مان لینے کی چیز نہیں ہے۔'' بلکہ اس کی ہر بات کو سمجھا بھی جاسکتا ہے۔
حالانکہ خالق کائنات نے قرآنِ مقدس کی ابتدا میں ''الم'' اُتار کر اِن عقل پرستوں کو گنگ کردیا ہے کہ جسے اپنی ''عقل'' پر گھمنڈ ہے وہ اِس کا حتمی معنی بیان کرے، پھر آگے چلے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک صحابی کے سوال پر عقلی جواب دینے کے بجائے ''تعوذ'' کی تلقین کرکے یہ سمجھادیا دین میں اہمیت ''ماننے'' کی ہے۔
غامدی صاحب چونکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے قابل قبول دین بنانے نکلے ہیں، اِس لیے اُنہوں نے اُن اسلامی احکامات کا بھی قلع قمع کرنے کی کوشش کی ہے جنھیں اِن عقل پرستوں کی عقلیں قبول نہیں کرتیں۔ جیسے حیات ِ عیسیٰ۔ لیکن چونکہ احادیث متواترة المعنی اِس پر دال ہیں۔ اِس لیے غامدی صاحب کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ اِن احادیث کو خلافِ قرآن قرار دے کر اِس عقیدے کا انکار کردیں۔ لہٰذا لکھتے ہیں:
 ''نزولِ مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے، لیکن قرآن کی روشنی میں دیکھیے تو وہ بھی محل نظر ہیں۔'']میزان:
١٧٨[

٧)… مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویزکا دفاع:
غامدی دین کا اصل مقصد تو یہودونصاریٰ کی رضامندی کا حصول ہے، اِس لیے وہ اُن شخصیات کے دفاع پر بھی مجبور ہیں جنھیں انگریزوں نے بطور آلہ کار استعمال کیا۔ لیکن علمائے امت نے اُن کے خلاف ایسا بند باندھا کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ایسی شخصیات میں سے مرزاغلام احمد صاحب قادیانی اور غلام احمد صاحب پرویز سرفہرست ہیں۔ غامدی صاحب الگ الگ مقامات پر اِن دونوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ پرویز صاحب کا دفاع تو اپنے قانون ''اتمام حجت''کے تحت کیا کہ: ''کسی کی تکفیر کا حق امتی کو نہیں ہے۔ لہٰذا علماء کا اُن کو کافر قرار دینا درست نہیں۔'' اور قادیانی صاحب کے دفاع کی یہ صورت اختیار کہ اُن کے دعویٰ نبوت سے انکار کرتے ہوئے اُن کو ایک عدد ''صوفی'' باور کرادیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
''مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بنیادی طور پر صوفی تھے...انہوں نے دعویٰ نبوت نہیں کیا۔''
]اختلافات احمدیہ:
٨٤[

قارئین مکرم!
آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ غامدی صاحب ''دلیل'' کی اہمیت کا نعرہ لگا کر… ''قرآن اپنے معنی میں بالکل واضح ہے'' کا خوبصورت جملہ سنا کر… ''سنت'' کا مبارک لفظ اپنے من گھڑت مفہوم کے لیے استعمال کرتے ہوئے… حدیث مبارکہ کو فکری وعملی زندگی سے خارج قرار دے کر… اجماع کو بدعت لکھ کر…حلت وحرمت کا معیار ''فطرت'' کو بتا کر… ''اتمام حجت'' اور ''سزائے قتل'' کے نام سے دو خود ساختہ اُصول وضع کرکے… دراصل یہود ونصاریٰ کے لیے قابل قبول دین تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور اِس مقصد کے لیے قرآنِ پاک، حدیث وسنت، اجماع امت، جہاد اورحدود شرعیہ سے الگ تھلگ ایک بالکل متوازی دین پیش کررہے ہیں۔ جسے دین غامدی کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔


٨)…چند مزید غامدی افکار:
سابقہ سطور میں غامدی صاحب کے بنیادی اُصولوں کے حوالے سے چند گذارشات کی گئی ہیں۔ ذیل میں ہم اُن کے چند مزید خیالات درج کرتے ہیں، جن میں انھوں نے جمہور امت کا راستہ (صراطِ مستقیم) چھوڑ دیا ہے۔
… قیامت کے قریب کوئی مہدی نہیں آئے گا۔ ]میزان:
١٧٧[
…قرآن پاک کی صرف ایک قراء ت ہے، باقی قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں۔
]میزان،ص:
٣٢،طبع اپریل٢٠٠٢ئ…بحوالہ تحفہ غامدی از مفتی عبدالواحد مدظلہ[
… تمام فقہاء کرام کی آراء کو اپنے علم وعقل کی روشنی میں پرکھنا چاہیے۔] ہٹس:
٧٢٧،١٩جون ٠٩ئ[
ہرآدمی کو اجتہادکاحق حاصل ہے۔ اجتہاد کی اہلیت کی کوئی شرائط متعین نہیں، جو سمجھے کہ اسے تفقہ فی الدین حاصل ہے وہ اجتہاد کرسکتا ہے۔ ]سوال وجواب،ہٹس
٦١٢،تاریخ اشاعت:١٠ مارچ ٢٠٠٩ئ[
…تصوف عالم گیر ضلالت اور اسلام سے متوازی ایک الگ دین ہے۔ ]برہان:
١٨١[
…مسلم وغیر مسلم اور مردوعورت کی گواہی میں کوئی فرق نہیںہے۔ سب کی گواہی یکساںہے۔
]برہان:
٢٥[
… زکوٰة کے نصاب میں ریاست کو تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ ]اشراق، جون
٢٠٠٨ئ، ص:٧٠[
…موسیقی فی نفسہ جائز ہے۔]اشراق، فروری
٢٠٠٨ئ،ص:٦٩[
…بت پرستی کے لیے بنائی جانے والی تصویر یا مجسمے کے علاوہ ہر قسم کی تصویریں جائزہیں۔
]اشراق،مارچ،
٢٠٠٩ئ، ص:٦٩[
… بیمہ جائز ہے۔ ]اشراق، جون
٢٠١٠ئ، ص:٢[
… سور کی نجاست صرف گوشت تک محدود ہے۔ اس کے بال، ہڈیوں، کھال وغیرہ سے دیگر فوائد اٹھانا جائزہے۔ ]اشراق،اکتوبر
١٩٩٨ئ،ص:٧٩…بحوالہ : غامدیت کیا ہے؟،ص:٦٠[

صوفیاء وفقہائے امت پر غامدی صاحب کا طنز:
صوفیائے کرام اور فقہائے عظام پر طنز کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:
'' اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اللہ کی ہدایت یعنی اسلام کے مقابلے میں تصوف وہ عالمگیر ضلالت ہے جس نے دنیا کے ذہین ترین لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ '']برہان:
١٥٦[
'' فقیہان کرام اس بات پر متفق ہیں کہ لڑکیوں کے حصے بہر صورت پورے ترکے میں سے دیے جائیں گے۔ ان حضرات کی یہی غلطی ہے جس کی وجہ سے انہیں عول کا وہ عجیب و غریب قاعدہ ایجاد کرنا پڑا ہے جس کو ماہرین فقہ و قانون کی بوالعجبیوں میں قیامت تک بلند ترین مقام حاصل رہے گا۔ کسی شخص نے کبھی علمی دنیا کے اعجوبوں کی تاریخ مرتب کرنا شروع کی تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارے علم میراث کی یہ یادگار اس میں سرفہرست ہوگی۔
حیرت ہوتی ہے کہ اسلوب بیان کی نزاکتوں کو سمجھنے اور آیات پر غور و تدبر کرنے کے بجائے ان حضرات نے یہ چیستان اللہ تعالیٰ سے منسوب کردیا ہے اور اس کی دریافت کا سہرا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سر باندھا ہے۔'' ]میزان:
٥٠[

اکابر دیوبند پر غامدی طنز:
غامدی صاحب لکھتے ہیں:
''ایک گروہ اِس بات پر مصر ہوا کہ نہ دین کو خاص اپنے مکتب فکر کے اُصول ومبادی اور اپنے اکابر کی رایوں سے بالاتر ہوکر براہِ راست قرآن وسنت سے سمجھنا ممکن ہے اور مغربی تہذیب اور اُس کے علوم اِس کے مستحق ہیں کہ وہ کسی پہلو سے اہل دین کی نظروں میں ٹھیریں۔ اِس گروہ کے بڑوں میں قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، محمود الحسن دیوبندی، انور شاہ کاشمیری، حسین احمد مدنی، اشرف علی تھانوی اور اور شبیر احمد عثمانی کے نام بہت نمایاں ہیں۔… اَب اس وقت دیکھیے، پہلے گروہ (دیوبندیوں) کی عمر پوری ہوچکی ہے۔ اِس کی مثال اَب اُس فرسودہ عمارت کی ہے جو نئی تعمیر کے وقت آپ سے آپ ویران ہوجائے گی۔''
]مقامات:
٢١[

مدارس پر طنز:
اس سے کوئی شخص اگر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ (حضرت ماعز)بے چارہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ زنا کیا ہے تو اس کے بارے میں پھر کیا عرض کیا جاسکتا ہے! حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے لوگ اگر زنا بالجبر کے متعلق یہ بھی کہتے ہیں کہ شرفا بھی کبھی کبھی اس کے مرتکب ہوجایا کرتے ہیں تو اس پر کچھ تعجب نہ کرنا چاہیے۔ عقل ودانش کی جو مقدار اب ہمارے مدرسوں میں باقی رہ گئی ہے، اس کے بل بوتے پر اس سے زیادہ کیا چیز ہے جس کی توقع ان لوگوں سے کی جاسکتی ہے؟ ]مقامات:
٨٥[

غامدی صاحب کے بارے اکابر امت کی رائے:
غامدی صاحب کی شخصیت، اُن کے افکاراور خود ساختہ دین کے مختصر تعارف کے بعد اَب ہم غامدی صاحب کے بارے میں اکابر امت کی آراء پیش کرنا چاہتے ہیں، تاکہ عوام الناس اُن کے شرعی حکم سے آگاہ ہوسکیں۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ]صدر:وفاق المدارس العربیہ،پاکستان[لکھتے ہیں:
جاویداحمد غامدی کی کتب اورعقائد کاگہرائی سے مطالعہ کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ موصوف کی ہرکتاب بلکہ ہرصفحہ وسطر سے ذہنی آوارگی، کج فہمی، فکری کج روی، آزاد فکری، خود پسندی، تکبراورضلالت وگم راہی ٹپکتی ہے۔ ]غامدی نمبر:
٣٦١[
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد صدیق رحمہ اللہ]شیخ الحدیث: جامعہ خیرالمدارس،ملتان[لکھتے ہیں:
غامدی صاحب لوگوں کو اہل السنة والجماعة کے متعین کردہ راستے (صراطِ مستقیم )سے ہٹارہے ہیں۔ (لہٰذا) امت کے لیے اس کے نظریات کو ترک کرنا ضرور ی ہے ۔۔]غامدی نمبر:
٤٣١[
شیخ الحدیث مولانا عبدالرزاق اسکندر مدظلہم]امیر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت[لکھتے ہیں:
بدقسمتی سے ہمارے بھولے بھالے عوام جوعموماً دین کی بنیاد ی واساسی معلومات سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں ،غامدی صاحب کی نرالی بوقلمیوں سے متاثر ہوکر جمہور امت سے الگ راہ پر جارہے ہیں ۔]
٤٤[
شیخ التفسیر مولانا منظور احمد نعمانی مدظلہم فرماتے ہیں:
غامدی کی تحریرات میں ایسا خطرناک مواد اور ایسی خوفناک چیزیں ہیں جس سے جدید نسل کے الحاد وبے دینی اور گمراہی وضلالت بلکہ کفر تک میں مبتلا ہونے کا شدید اندیشہ ہے۔]غامدی نمبر:
٤٥١[
 مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم ]نائب صدر: جامعہ دارالعلوم کراچی[لکھتے ہیں:
جب ایک مرتبہ کوئی صاحبِ فکر جمہور اُمت کے مسلمات سے آزاد ہو کراپنی راہ الگ اختیار کرلیتا ہے اور یہ تصور کرلیتا ہے کہ وہ اِن مسلمات کے بارے میں پہلی بار اصابتِ فکر کے ساتھ غور کررہا ہے، اور چودہ صدیوں میں علمائِ امت اُس اندازِ فکر سے محروم رہے ہیں، تو اُس کے اوپر کوئی روک باقی نہیں رہتی۔ ماضی میں یہی طرزِ فکر نہ جانے کتنی گمراہیاں پیدا کرچکا ہے۔ طٰہٰ حسین سے لے کر سرسید تک اور وحیدالدین خان صاحب سے لے کر جاوید غامدی صاحب تک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔]غامدی نمبر:
٤٧١[
وکیل احناف شیخ الحدیث مولانا فضل الرحمن دھرم کوٹی مدظلہم لکھتے ہیں:
اس کے زندیق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور زندیقیت کفر فوق کفر ہے۔]صفدر،ش:
٥٤[
 وکیل احناف مولانا مفتی محمد انور اوکاڑوی مدظلہم]رئیس شعبہ دعوة وارشاد: جامعہ خیرالمدارس ملتان[لکھتے ہیں:
اِس دور کا سب سے بڑا فتنہ اکابرین سے اعتماد اٹھاکر دین کی نئی تشریح کرنے کا ہے۔ دورِ حاضر میں باقی فتنوںکی طرح ایک جاوید غامدی کافتنہ ہے۔
ترجمان دیوبند مولانا نورمحمد تونسوی رحمہ اللہ]سرپرست اعلیٰ: اتحاد اہل السنة والجماعة[لکھتے ہیں:
گذشتہ چند سالوں سے مولانا محمد عمار خان صاحب ناصر اہل حق کی نظروں میں متنازع فیہ شخصیت قرار پا چکے ہیں کہ وہ جاوید غامدی پرویزی کی تقلید میں جمہور اہل السنة والجماعة کی راہ سے ہٹ کر گمراہی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔]
٤٨[
شیخ الحدیث مولانا منیر احمد منور مدظلہم لکھتے ہیں:
اہل قرآن، اہل حدیث، مودودی ازم، فتنہ غامدیت اور ان جیسے دیگر اسلاف واکابر کے فکر وتحقیق سے آزاد اداروں، شخصیتوں اور ان کے لٹریچر سے احتراز لازم ہے کہ اس میں دین وایمان کی حفاظت ہے۔]
٤٨[
شیخ الحدیث مولانا حبیب الرحمن سومرو مدظلہم لکھتے ہیں:
احقر کی نظرمیں جاوید غامدی صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اسلام پربعض اہل عقل کے اعتراضات دیکھ کر ہتھیار ڈال دئیے اور بے بس ہو کر ان کو مطمئن کر نے کے لیے دین میں تحریفات کو اپنا شیوہ بنایا اور دین کے اصلی حلیہ کو بگاڑکر رکھ دیا۔]
٥٠[
مولانا مفتی عبدالقدوس ترمذی مدظلہم لکھتے ہیں:
موصوف جہاں اوربہت سے باطل نظریات کے حامل ہیں وہاں وہ قرآن کریم کی متواترقراآت کے بھی منکر ہیں۔]
٥٢[
مولانا مفتی جمیل الرحمن مدظلہم لکھتے ہیں:
''غامدیت'' اِس وقت کے بڑے فتنوں میں سے ہے۔]
٥٣[
مولانا قاضی نثار احمد مدظلہم لکھتے ہیں:
جاوید احمد غامدی صاحب اہل سنت سے خارج اور خلاف شرع عقائد ونظریات کا حامل و داعی ہے۔ ان میں سے بعض امور نہ صرف سخت گمراہی کے زمرے میں داخل ہیں بلکہ کفر کی سرحد کو چھورہے ہیں۔]
٥٤[
غامدی سے متعلق چند فتاویٰ جات:
مولانا مفتی حمید اللہ جان رحمہ اللہ کا فتویٰ:
یہ شخص زندیق ہے اور اس کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ناجائز ہے۔ ]غامدی نمبر:
٥٩٤١[
مولانا مفتی عبدالواحد مدظلہم کا فتویٰ:
جاوید احمد غامدی گمراہ ہے اور اُس کے افکار گمراہی کاپلندہ ہیں۔… کچھ باتیں توکفر کے قریب تک پہنچ گئی ہیں۔]غامدی نمبر:
٥٩٥١[
جامعہ دارالعلوم کراچی کا فتویٰ: (
١)… جاوید احمد غامدی صاحب نے بہت سے اجماعی اور متفقہ مسائل میں اپنی الگ رائے قائم کی ہے، 
SALIM FARIYAADI
Top of Form